سرینگر//(ویب ڈیسک)
غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے امریکی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس سال وائٹ ہاؤس کی رمضان اور عید کی تقریبات میں حصہ نہیں لیں گے۔
امریکی مسلمان صدر جو بائیڈن کی جانب سے اسرائیل کی حمایت سے نالاں ہیں وہ مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ امریکی صدر غزہ جنگ بندی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
امریکی اسلامی تعلقات پر کام کرنے والی تنظیم ’کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز‘میں حکومتی امور کے شعبے کے ڈائریکٹر رابرٹ میک کاو کا کہنا ہے کہ کسی تقریب میں شرکت سے متعلق کوئی دعوت نامہ جاتا ہے تو بڑے پیمانے پر یہ تاثر موجود ہے کہ امریکی مسلم کمیونٹی کے رہنما اور تنظیمیں اسے مسترد کر دیں گی۔
میک کاو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکی مسلمانوں کا یہ موقف انتظامیہ کی جانب سے مسلم کمیونٹی کے فوری اور مستقل جنگ بندی کے مطالبات کو پورا کرنے میں ناکامی کے باعث بنا ہے۔
امریکی مسلمانوں کے خدشات کے حوالے سے انہوں نے کہا ’’مسلمان سمجھتے ہیں کہ حکومت نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے سے انکار کیا اور یہ ہتھیار غزہ میں ان کے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے خلاف نسل کشی میں استعمال ہو رہے ہیں‘‘۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق بائیڈن انتظامیہ وائٹ ہاؤس میں رمضان کی تقریبات کو کم کرنے پر غور کر رہی ہے جب کہ پریس سیکریٹری کرائن جین پیئر نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے مقدس مہینے سے متعلق کسی جشن کا اعلان نہیں کیا گیا۔
انہوں نے پیر کو اپنی پریس بریفنگ کے دوران وی او اے کو بتایا’’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت سی کمیونٹیز کے لیے ایک تکلیف دہ وقت ہے‘‘۔
پریس سیکریٹری نے مزید کہا کہ وائٹ ہاؤس کے سینئر حکام نے عرب، مسلم اور فلسطینی کمیونٹی کے اراکین سے ’ان کے خیالات کے بارے میں بات کرنے، ان کے تحفظات کا اظہار کرنے کے لیے ’ملاقات کی ہے‘ اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں‘‘۔
صدر جو بائیڈن نے رمضان کے آغاز کے موقع پر ایک بیان میں کہا تھا کہ اس رمضان میں فلسطینی عوام کے مصائب ’’بہت سے مسلمانوں کے ذہن میں ہوں گے اور یہ میرے ذہن کے سامنے ہے‘‘۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بائیڈن نے مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں کی رمضان کے مہینے میں میزبانی کی دہائیوں پرانی وائٹ ہاؤس کی روایت کو جاری رکھا ہے۔ اس روایت کا آغاز۱۹۹۶ میں صدر بل کلنٹن کے دور میں ہوا تھا۔
تب سے ری پبلکن اور ڈیموکریٹک صدور نے رمضان کے دوران افطار ڈنر یا عید الفطر کے استقبالیہ کی میزبانی کی ہے۔
لیکن اس سال امریکی مسلمانوں کی جانب سے ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر کسی تقریب کا بائیکاٹ کا سامنا کرنے کے علاوہ، وائٹ ہاؤس ایسے مناظر سے بھی گریز کرنا چاہے گا جہاں صدر کو فلسطینیوں کے حامی مظاہرین کی طرف سے چیخ و پکار کی صورت میں خلل کا سامنا ہو۔
خیال رہے کہ فلسطینیوں کے حامیوں میں سے کئی نے ملک بھر میں بائیڈن کی انتخابی مہم میں خلل ڈالا ہے۔
غزہ پر غم و غصہ فارس کے نئے سال کے تہوار نوروز پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ ایران سے باہر عراق، افغانستان، بھارت، پاکستان، ترکی، تاجکستان، آذربائیجان، ازبکستان اور قازقستان سے تعلق رکھنے والے مختلف نسلوں اور مذہبی وابستگیوں سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن یہ تہوار مناتے ہیں۔
اس سال نوروز رمضان میں ہے اور انتظامیہ نے ماضی کی طرح سینکڑوں لوگوں کو استقبالیہ میں مدعو کرنے کے بجائے اس ہفتے کے آخر میں وائٹ ہاؤس’نوروز اوپن ہاؤس ٹور‘کی میزبانی کرے گا۔
اس بارے میں’افغان امریکن فاؤنڈیشن‘کے بورڈ کے رکن جاوید کوتوال کہتے ہیں کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا امریکی صدر خود اس تقریب میں شرکت کریں گے۔