سرینگر جموں قومی شاہراہ کی تباہی قدرتی یا فطری نہیںبلکہ یہ بربادی اس مخصوص شاہراہ کو چارلین میں تبدیل کرنے کے ایک احسن فیصلے کی غلط عمل آوری اور ناقص منصوبہ بندی کا فطری ردعمل ہے۔ اگر چہ بار بار اس غلط منصوبہ بندی کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے جبکہ شاہراہ کے قرب وجوار میں رہائش پذیر آبادی بھی بار بار اس غلط اور ناقص عمل آوری کی نشاندہی کرکے سراپا احتجاج بھی بنی رہی ہے لیکن نیشنل ہائی وے اتھارٹی ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے اور ٹھیکہ حاصل کرنے میں کامیاب فرمیں اپنی ناقص اور تباہ کن عمل آوری کے راستے پر بدستور گامزن ہیں۔
سڑک کے وہ حصے جو حالیہ برسوں تک تودے گرآنے یا پسیاں گرآنے کی وبا سے محفوظ تھے متعلقہ ٹھیکہ دار فرموں کی غلط عمل آوری اور طریقہ کارکے نتیجہ میں اب متاثر ہورہے ہیں جو فی الوقت کم سے کم چالیس کلومیٹر سڑک کو اپنی تباہی کی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ یہ تباہی ، تودوں کے گرآنے ، سڑک کے مختلف حصے اندر ہی اندر سے دھنس جانے کی بُنیادی وجہ وہ بلاسٹنگ ہے جس کا سہارا متعلقہ فرمیں اندھا دھند طریقے سے لے رہی ہیں۔ اندھا دھند بلکہ غیر منصوبہ بند بلاسٹنگ کا طریقہ کار اختیار کرکے نہ صرف قومی شاہراہ کو حال تو حال ہے مستقبل کے تعلق سے بھی نازک مرحلہ سے ہم کنار کردیا ہے۔
بے شک تین سو کلومیٹر لمبی اس شاہراہ کے کچھ حصے اب بہتر ہیں اور سفر بھی خوشگوار محسوس ہورہا ہے لیکن جو حصے اب متاثر ہورہے ہیں آئے روز کی مسلسل مرمت اور تعمیر نو کے باوجود وہ سفر کیلئے اب ناپائیدار تصور کئے جارہے ہیں۔ اندھا دھند اورغیر منصوبہ بند بلاسٹک نے جہاں اس شاہراہ کے کئی اہم حصوں کو غیر محفوظ بنادیا ہے بلکہ قرب وجوار کی آبادی کیلئے بھی خطرات اور پریشانیوں میںزبردست اضافہ ہوا ہے ۔ بلاسٹنگ کے نتیجہ میں جہاں ماحولیاتی توازن بڑے پیمانے پر بگڑتا جارہاہے وہیں شاہراہ کے دامن میںبہتا دریا کے کنارے بھی تیزی کے ساتھ سکڑتے جارہے ہیں۔ کیونکہ شاہراہ کا جو بھی ملبہ ہے وہ سارے کاسارا اسی دریا کی نذر کیاجارہاہے۔ ٹھیکہ دار فرموں کو اس حوالہ سے بھر پور چھوٹ دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ جو کچھ ٹنل تعمیر کی جاچکی ہیں ان میں سے کچھ ایک اپنے تعمیراتی نقائص کے نتیجہ میں اب ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں۔یہ بھی مستقبل کے حوالہ سے ایک نیا درد سر ثابت ہوسکتی ہیں۔ جموںوکشمیر کے عوام نے بحیثیت مجموعی شاہراہ کو چار لین والی شاہراہ میںتبدیل کرکے ترقی دینے کے مرکزی سرکار کے فیصلے کا عموماً خیر مقدم بھی کیا اور اس کی ضرورت کو کئی اعتبار سے اُجاگر بھی کیا لیکن وہ یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ کئی کئی کلومیٹر تک بیک وقت اور اندھا دھند بلاسٹنگ کا ناقص طریقہ کار اختیار کیاجائے گا۔ اس مخصوص طریقہ کار کی عوامی سطح پر مخالفت کے باوجودہاتھ نہیں روکا گیا اور نہ ہی عمل آوری کے تعلق سے کسی دوسرے قابل عمل اور معقول آپشن کا سہارا لیاگیا۔
سڑک کی اس صورتحال کے نتیجہ میں عام مسافروں، مال بردار ٹرک اور زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے لوگوں اور کاروبار یوں کو نہ صرف ذہنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے بلکہ بسا اوقات کئی کئی روز تک درماندگی کا تکلیف بھی برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ سڑک کے بند ہوجانے کے فوری ردعمل میںکشمیر کے طول وارض میںمختلف اشیاء کی قیمتوں میںآسمان کی حد تک اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ مختلف اشیاء کی قلت بھی پیدا ہوجاتی ہے یا کی جاتی ہے۔ یہ صورتحال اس وجہ سے بھی پیش آتی ہے کیونکہ کشمیر کو حالیہ برسوں میں پیداواری ریاست کی بجائے ایک کھپت والی ریاست میںتبدیل کردیاگیا ہے۔ ظاہر ہے جب ساراانحصار درآمدات پر ہو تو پھر ردعمل میںاس کے بطن سے خرابیوں کا انبوہ جنم لینا شروع کردیتا ہے۔ ہر طبقہ اور ہر حلقہ اس صورتحال کا اپنے حقیر مفادات کے حصول کیلئے مورچہ زن ہوجاتا ہے چاہئے منافع خور ہوں یا قومی شاہراہ پر تعینات متعلقہ ایجنسیوں اور اداروں سے وابستہ اہلکار ہوں۔
سرینگر جموںشاہراہ پر مال بردار ٹرکوں کی نقل وحمل ٹرانسپورٹروں اور ڈرائیوروں کیلئے جوئے شیر لانے کی مترادف بنادی گئی ہے۔ نذرانوں کی ادائیگی اور وصولی کے بغیر سفر ممکن نہیں۔ جن اداروں کے منتظمین اور سرپرست اور ایڈمنسٹریشن میںاعلیٰ سطح پر جو ذمہ دار کورپشن اور بدعنوان طرزعمل کے تعلق سے زیرو ٹالرنس کی دہائیاں دیتے رہتے ہیں وہ اپنے پُر تعیش گاہوں سے نجی حیثیت میں سکیورٹی حصار کے بغیر شاہراہ پرسفر کرنے کی زحمت گوارا کریں تو خود وہ اپنی آنکھوں سے مال بردار گاڑیوں کے آپریٹروں سے کی جارہی بدسلوکیوں اوررشوت کے تقاضوں کا ضرور مشاہدہ کریں گے۔
بہرحال جو کچھ بھی شاہراہ کے تعلق سے صورتحال ہے وہ بحیثیت مجموعی تکلیف دہ بھی ہے اور پریشان کن بھی ہے۔ اس صورتحال اور تکلیف سے لوگوں کو چھٹکارہ دلانے کیلئے ضروری ہے کہ نہ صرف ٹریفک مینجمنٹ کے موجودہ کورپٹ اور بدعنوان طریقہ کار سے انہیںنجات دلائی جائے بلکہ شاہراہ کے جن مخصوص حصوں کی اندھا دھند بلاسٹنگ کی جارہی ہے اس حوالہ سے متبادل آپشن اختیار کئے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی جو ملبہ ، جس کا روزانہ اوسط حجم لاکھوں میٹرک ٹن ہے، کو دریا برد کرنے سے متعلقہ ٹھیکہ دار فرموں کو روک دیا جائے تاکہ سڑک کے ساتھ ساتھ رواں دریا کی روانی متاثر بھی نہ ہواور اس کا تحفظ بھی ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ یقینی بنایاجاسکے۔