عالمی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ غزہ کے دو اسپتالوں کمال عدوان اور العودہ میں مریض اور زخمی بھوک سے مر رہے ہیں۔ تنظیم نے مزید کہا کہ اسپتالوں کا دورہ کرنے والے اس کے مشن نے خوراک، ایندھن اور ادویات کی شدید قلت دیکھی۔ تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گبرئس نے کہا کہ تنظیم کی جانب سے شمالی غزہ تک باقاعدگی سےامداد پہنچانے کی کوششوں کے باوجود اکتوبر ۲۰۲۳ءکے بعد تنظیم کی جانب سے ہفتہ کے آخر میں العودہ اور کمال عدوان اسپتالوں کے ۲؍مرتبہ دورے کئے گئے۔ ٹیڈروس نے ’ایکس‘ پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا کہ تصویر تاریک ہے اور العودہ اسپتال کی صورت حال خوفناک ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ کمال عدوان اسپتال واحد اسپتال جس میں شمالی غزہ میں بچوں کا شعبہ شامل ہے جو بڑی عمر کے مریضوں سے بھرا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خوراک کی کمی ۱۰؍ بچوں کی موت کا باعث بنی ہے۔ ۷؍ اکتوبر سے اسرائیلی قابض فوج نے امریکی اور یورپی حمایت سے غزہ پٹی کے خلاف اپنی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس کے طیارے اسپتالوں، عمارتوں، ٹاورز اور فلسطینی شہریوں کے گھروں پر بمباری کر رہے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چیف وولکر ترک نے کہا ہے `غزہ میں جاری اسرائیل حماس جنگ کی وجہ سے پورے خطے میں بہت خوفناک لہر آئی ہوئی ہے۔ وولکر ترک نے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کی معمول کی میٹنگ کے موقع پر کہی۔ وولکر ترک نے کہا کہ یہ تشویشناک ہےکہ غزہ بارود کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ یہ وہ بارود ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور یہ مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر ممالک کیلئے بھی کئی خطرات لائے گا۔ وولکر ترک نے کہاکہ بار بار مسلسل ایمرجنسی اور ہنگامی حالات کسی بڑے خطرےکا اشارہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لبنانی جنگجو گروپ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بھی ہمارے لئے انتہائی پریشان کن ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے ہائی کمشنر نے کہا کہ ` اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک لبنان میں ۲۰۰؍ ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ ۹۰؍ہزار شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسی طرح علاج معالجے سے متعلق سہولیات اور اسپتالوں کو بھی ان حملوں کے باعث بہت نقصان پہنچ چکا ہے۔ ترک نے کہاکہ `ان حملوں کے دوارن طبی عملہ کی ہلاکتوں کے علاوہ عورتوں اور بچوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بھی تحقیقات کئے جانے کی ضرورت ہے۔