امریکی صدر جوبائیڈن نے خبردار کیا ہے ‘ رمضان سے پہلے جنگ بندی کا نہ ہونا بہت خطرناک ہو جائے گا۔ ان کا اس بارے میں مزید کہنا تھا کہ اس بات کا انحصار اب حماس پر ہے کہ وہ چھ ہفتوں کے لیے جنگ بندی کی تجاویز کو قبول کرتی ہے یا نہیں۔ ۔ انہوں نے اس امر کا اظہار کیمپ ڈیوڈ میں کچھ دن قیام کے بعد واپس وائٹ ہاؤس جانے سے پہلے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے۔
انہوں نے اس موقع پر غزہ میں اسرائیلی فوج کی طرف سے انسانی بنیادوں پر امدادی کی ترسیل کی راہ میں پیدا کردہ رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا اور کہا ‘ اس کے لیے کوئی عذر یا بہانہ نہیں ہو سکتا ہے کہ لوگوں تک فلسطینی علاقے میں امدادی سامان نہ پہنچنے دیا جائے۔
اکیاسی سالہ جوبائیڈن جو اگلے نومبر میں ایک بار پھر امریکی صدارت کے لیے انتخاب لڑنے جا رہے ہیں نے جنگ بندی کو حماس پر ڈال دیا۔ واضح رہے پچھلے ماہ امریکہ نے اسرائیلی خواہش کی تیسری بار تعمیل کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔ تاہم اس کے بعد امریکی انتظامیہ کو امریکہ کے اندر اور باہر سے سخت دباؤ کا سامنا ہے۔
صدر جوبائیڈن جنگ کے پانچ ماہ مکمل ہونے اور 30600 سے زائد فلسطینیوں کے غزہ میں قتل کے بعد کے درپیش مرحلے پر اطمینان ظاہر کیا کہ اسرائیل جنگ بندی کے لیے تعاون کر رہا ہے، جوبائیڈ نے کے بقول ‘اس کی پیش کش منطقی ہے۔ ‘ انہوں نے کہا ‘ ہم اگلے ایک دو دنوں کے دوران جنگ بندی کے بارے میں جان جائیں گے مگر ہم جنگ بندی چاہتے ہیں۔ ‘
امریکی صدر نے مزید کہا رمضان سے پہلے جنگ بندی ضروری ہے اگر اس میں ہم کامیاب نہ ہوئے تو یہ یروشلم اور اسرائیل کے لیے بہت بہت خطر ناک ہو سکتا ہے۔’
خیال رہے رمضان المبارک کا آغاز دس یا گیارہ مارچ کو متوقع ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیر اعظم کے اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک انتہا پسندی یہودی رہنما اور وزیر ایتمار بین گویر نے کہا ہے کہ رمضان کے دوران ہم مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ جانے کی اجازت دے کر اپنے لیے خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
دوسری طرف امریکہ نے پچھلے ماہ اسرائیل پر زور دیا تھا کہ رمضان کے دوران مسجد اقصیٰ میں عبادات کی اجازت دی جائے۔ اس بارے میں اسرائیلی حکومت ابھی تک سخت رائے رکھتی ہے۔ تاہم جوبائیڈن نے کیمپ ڈیوڈ میں رپورٹروں سے بات چیت کے دوران کہا ‘ ہم ان کے ساتھ مل کر سخت محنت کر رہے ہیں ہمیں غزہ میں مزید امداد چاہیے۔ اس کے لیے کوئی عذر قبول نہیں ہو سکتا ہے۔’
واضح رہے اسرائیلی وزیر اعظم کی جنگی کابینہ میں شامل سب سے بڑے حریف سیاسی رہنما بینی گانٹز نے پیر کے روز وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا ہے اور نائب صدر کملا ہیرس کے علاوہ دوسرے امریکی حکام کے ساتھ بھی ملاقات کی ہے۔ اس موقع پر یرغمالیوں کی رہائی کا معاملہ بطور خاص زیر گفتگو رہا۔