کیا سیاسی اُفق کی تباہی اور بربادی کشمیراور کشمیریوں کا مقدر بنتی جارہی ہے۔ اگر چہ یہ سیاسی اُفق ماضی یا ماضی قریب میں کسی بھی موقعہ اور مرحلہ پر مکدر رہی بغیر نہیں گذری لیکن مختلف سیاسی نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں اور ان جماعتوں سے وابستہ لیڈروں کا لب ولہجہ، انداز بیان، اپروچ اور مفادات کے تحفظ سے وابستہ سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے اب یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ کشمیر کی سیاست میں ذاتیات، ذات اورپات ، علاقائی اور لسانی نظریات، حسد، بغض اور کمینہ پن بڑی تیزی سے متعارف بھی کرایا جارہاہے اور پروان بھی چڑھایا جارہا ہے۔
اس طرز کا اندا زبیان اور مخصوص اپروچ کسی ایک پارٹی یا ایک لیڈر کا طرہ ٔ امتیاز نہیں بلکہ جو کشمیرکی سیاسی اُفق سے وابستگی رکھتا ہے وہ سارے کم وبیش اسی مخصوص اپروچ کے خود کو تابع کرتے جارہے ہیں۔ کسی سیاسی جماعت اور اُن کی لیڈر شپ کو اپنے اپنے ماضی کے حوالہ سے کردار پر نگاہ نہیں ۔ کب کسی سیاستدان نے بحیثیت مجموعی کشمیر باالخصوص اپنے حلقہ انتخاب کے ووٹروں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی سمت میں کسی سنجیدگی سے کام لیا، کیا کبھی کسی سیاست کار نے اپنے ووٹر کے نریٹو،اس کی خواہشات اور روزمرہ ضروریات کے تعلق سے اس کو اپنی زبان عطاکی، برعکس اس کے گمراہ کن ،خوش نما اور جذبات سے کھلواڑکے قریب نعرہ بازی اور عہد شنکیوں پر مبنی اپروچ پر گامزن لوگوں کا بدترین استحصال ہی کرتے رہے۔
آج جبکہ پارلیمانی الیکشن کا مرحلہ قریب ہوتا جارہاہے، اُسی مناسبت سے سیاسی بازار بھی گرم ہوتا جارہاہے جبکہ گرم گفتاری کے تیر و تفنگوں کی زور دار بارش بھی ہورہی ہے۔اب کچھ سیاستدان اس نعرے کے ساتھ میدان میں کودتے دکھائی دے رہے ہیں کہ کشمیرکے دُشمنوں کو الیکشن جیتنے نہیں دیں گے۔ یہ بیان کشمیرکی سیاسی اُفق کے تعلق سے بالکل نیا اور کئی اعتبار سے حیران کن بھی ہے۔
کشمیر کا دُشمن کون ہے؟ بیان دینے والے سیاستدان نے اس کی وضاحت نہیںکی۔ البتہ کچھ کا خیال یہ ہے کہ اشارہ نیشنل کانفرنس کی طرف ہے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ بیان دیتے وقت بی جے پی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے بھی کشمیرکا دُشمن قراردیا ہے۔یہ سوال کہ ا س نوعیت کے بیانات اور طرز بیان اختیار کرنے سے کیا سجاد غنی لون یا اور کوئی جواس نظریہ کا حامی اور حامل ہے یہ توقع کرتا ہے کہ اس کے بل بوتے پر وہ الیکشن میدان سر کرنے میںکامیاب ہوجائیں گے اور بقول ان کے اس طرزسیاست کو بنیا دبناکر وہ رائے دہندگان کو اپنا حامی اور ہم خیال بناپائینگے؟ جواب قدرے مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ، اس لئے کہ ہر کشمیری کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ۹۰ء کے عشرے سے اب تک کس سیاستدان اور کس سیاست کا ر کا کیا کچھ عملی کرداررہاہے۔
اگر نیشنل کانفرنس کشمیر یوں کی بقول اس کے دُشمن ہے تو گپکار الائنس کا اس کے شانہ بشانہ ایک صف میں کھڑا رہنے کے فیصلے کو کس زمرے میں رکھاجائے، اگربی جے پی بقول لون صاحب کے کشمیر یوں کی دُشمن ہے تو محبوبہ مفتی کی قیادت میں بی جے پی ؍ پی ڈی پی مخلوط حکومت میں بی جے پی کے کوٹہ سے وزارتی عہدہ حاصل کرنے اور آخروقت تک تمام ترمراعات، ذاتی بزنس میں ترقی کے راستے ہموار کرنے، ایڈمنسٹریشن کے کچھ مخصوص شعبوں میں اپنے منظور نظروں کی تمام تر قوائد وضوابط کو بالا طاق رکھتے ہوئے تقرریوں کو کس زمرے میں رکھاجائے اور پھر بی جے پی کے سب سے قد آور لیڈر اور وزیر اعظم نریندرمودی کو اپنا بڑا بھائی قرار دینے والے چہرے کو آج کی تاریخ میں کس رنگ کے حجاب سے ڈھانپا جاسکتا ہے؟
کشمیر اور کشمیریوں کا دُشمن درحقیقت وہ سیاستدان ہیں جو خود کو قومی دھارے سے وابستگی جتلا کر عوام کے جمہوری اور آئینی حقوق پر ڈاکے ڈالتا رہا ہے، کشمیراور کشمیریوں کا دُشمن وہ سیاستدان بھی ہیں جو الحاق کو وقت وقت پر چیلنج کرتے رہے ہیں۔ کشمیر اور کشمیریوں کا دُشمن وہ سیاستدان بھی ہیں جو سرحد کے اس پار اور سرحد کے اُس پار اپنے اپنے سیاسی آقائوں کی ملازمت کرتے رہے ہیں ۔
کیا یہ کشمیرکا تلخ ترین سچ نہیں کہ اگر ۸۷ء میں اور اس سے پہلے کے الیکشنوں میں لوگوں کے آئینی اور جمہوری حقوق پر ڈاکے نہیں ڈالے گئے ہوتے تو قومی دھارے سے وابستہ وہ جوان جو ۸۷ء کے الیکشن میں میدان میں اُترے تھے کو ہر اکر انہیں اوران کے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ پولیس اسٹیشنوں کی کال کوٹھریوں میںڈال کر انہیں محض حصول اقتدار کی خاطر تختہ مشق بنایاگیا جو کشمیر میں عسکریت کی بُنیاد ڈالنے میں سنگ بُنیاد ثابت ہوا اور پھر اسی عسکریت کی کمان سنبھالنے والے حریت کانفرنس کی صف میںبھی کھڑے نظرآئے، کشمیر کی آزادی اور وفاق ہند سے علیحدگی کا دفاع کیلئے ٹیلی ویژن اسٹیڈیوز میں بیٹھ کر تاریخی دلیلیں پیش کیا کرتے۔
کشمیر یوںکے سینوں میں بہت کچھ ہے، وہ ابھی مکمل طور سے ۹۰ء کی گھٹن سے باہر نہیں آپارہے ہیں، اور جب ان سینوں میںکسی مرحلہ پر کسی حوالہ سے معمولی سا اُبھال برپا ہوگا تونہ جانے کتنے چہرے جونقابوں میں ابھی چھپے ہیں عریاں حالت میں بے نقاب ہوجائیں گے۔کون پھر خس وخاشاک کی طرح اُس آنیوالے سیلاب میں بہہ کر فنا ہوتا جائے گا۔ آج کچھ خود کو بخشی دور کا ثانی کے طور بھی پیش کررہے ہیں لیکن کون نہیںجانتا کہ بخشی کا وہ دور غنڈہ گردی، لوٹ ،کورپشن ،مارل کورپشن، بدعنوانیوں اور نہ جانے کس کس عنوان کے ساتھ کشمیر کی عصری تاریخ میں رقم ہے۔
اور پھر ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ کشمیر اور کشمیریوں کاسب سے بڑا دُشمن کانگریس پارٹی حکومت کا پہلا وزیراعظم آنجہانی جواہر لال نہرو تھا۔