سیاست کا کوئی چہرہ نہیں، فجر نماز تک سیاسی دوست عشاء نماز تک دُشمن بن چکا ہوتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ سیاست کے حوالہ سے عموماً کہا جاتا ہے کہ سیاست میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ مستقل دُشمن، اس کی ہیت ترکیبی کچھ ایسی ہے کہ یہ بیک وقت اپنے اندر سانپ اور اژدھوں کی سی خصلت اور فطرت بھی رکھتا ہے اور کتے کی سی دوستی اور وفاداری بھی ۔
کشمیر کا سیاسی منظرنامہ اسی سے عبارت ہے ۔ کشمیرکے اس مخصوص سیاسی منظرنامہ کی داغ بیل کب اور کس نے ڈالی اس کی وضاحت ترتیب اور تفصیلات کے ساتھ راج ترنگنی میں تو موجود ہے البتہ ۱۹۴۷ء میں الحاق کے فوراً بعد سیاسی اُفق پر جو کردار جلوہ گر تھے یا جو بعد کے آنے والے دنوں ہفتوں میں منظرعام پر آتے گئے انہوں نے اسی سیاسی اندازفکر اور طرزعمل کو اپنے گلے کا ہار بناکر سینے سے لگایا البتہ مرحوم بخشی غلام محمد کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس طرز کی سیاست کی ایک نئی داغ بیل انہوں نے ہی ڈالی۔
بہرکیف جو کوئی بھی اس طرز کی سیاست کا خالق یا ذمہ دار ہے قطع نظر اُس کے افسوس بھی اور ستم ظریفی تویہ ہے کہ آج کی تاریخ میں گذشتہ کچھ دہائیوں سے جو لوگ کشمیرکی سیاسی اُفق سے وابستہ ہیں ان کے بارے میں کوئی یہ دعویٰ کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ سارے کے سارے دودھ کے دھلے ہیں یا عوام کی صفوں میں ان سے متعلق کوئی حسن زن ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ سیاست کی ان گلیاریوں میں جوکوئی بھی محو حرکت یا سرگرم ہے اس کا ہدف کیا ہے، اس کی سرگرمیوں کا اصل محور اور محرک کیا ہے، اس کا انداز فکر اور طرزعمل کس کس سمت کی جانب محو پرواز رہا کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ سارے سیاستدان اب اس حد تک ماہر پیشہ ور بلکہ فنکار بن چکے ہیں کہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ایک دوسرے کی چولی کے پیچھے کیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے رازوں سے اچھی طرح کی واقفیت رکھتے ہیں، رات کی تاریکی میں کون کس محفل کا شمع بنتا ہے اور کون پروانہ، کچھ بھی چھپا نہیں۔
یہ نہ عنوان ہے نہ تمہید بلکہ محض ایک چہرہ ہے جس چہرہ کو لے کرسیاست کے نام پر لوگوں کے جذبات، ارمانوں، تمنائوں اور دیرینہ آرزوں کے ساتھ شعوری طور سے ہر سیاست کار مجرمانہ کھلواڑ کا مرتکب تصور کیاجارہاہے۔ اسی مخصوص تناظرمیں فی الوقت کچھ دنوں سے یہ بحث وتکرار جاری ہے کہ نیشنل کانفرنس کی باپ بیٹے کی قیادت آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ کے فیصلے سے قبل مرکزی قیادت نے اعتماد میںلی تھی، حکمران جماعت کی صف اول کی لیڈرشپ کے ساتھ رات کی تاریکیوں میںملاقاتیں کرتی رہی ہیں، عوام کا ردعمل قابو میں رکھنے کیلئے باپ بیٹے کی قیادت نے مرکزی قیادت کو از خود یہ مشورہ دیا کہ انہیں جیل میں رکھا جائے یا گھروں میں نظربند ۔ کیا واقعی یہی ہوا تھا،یہی سچ ہے یا محض کسی نئی سیاسی انجینئرنگ کا آغاز؟
لیکن دعویٰ کرنے والے غلام نبی آزاد اور ان سے قبل ایک وقت کے باپ بیٹے کے دست راست بلکہ۷x۲۴ ان کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والے اور تمام امورات کی نگرانی کے واحد نوڈل آفیسر کی حیثیت رکھنے والے دیویندر سنگھ نے بھی کچھ ایسا ہی دعویٰ کیا ہے۔ باپ بیٹے نے جواب میں آزاد پر پلٹ وار کرتے ہوئے ان سے کئی سوال کئے جن میں کچھ استدلال، معقولیت اور وزن تو ہے لیکن یہی سارا سچ نہیں بلکہ اصلی سچ بھی بہت سارے پردوں کی اوٹ میں ہے، کب یہ پردے ہٹ جائیں گے ا س کا انتظار ہے۔ لیکن کب ایسے وقت میں جب پارلیمانی الیکشن کا بگل پوری قوت کے ساتھ بج رہا ہے اور حکمران جماعت کے خلاف اپوزیشن اتحاد بھی اپنے بکھرائو اور اندرونی دھڑہ بندیوں کے باوجود ایک ناتواں ہی سہی چیلنج بن کر اُبھر رہا ہے نیشنل کانفرنس کے بارے میں اس طرح کے دعویٰ کیا معنی خیز نہیں ؟ اگر واقعی باپ بیٹے کی سیاسی جوڈی حکمران لیڈر شپ سے ملاقی ہوتی رہی ہے جس میں اور باتوں کے علاوہ جموںوکشمیرمیں حکومت سازی کے لئے اتحاد کی کوششیں بھی شامل ہیں تو سوال یہ ہے کہ ۴؍سال تک دعویٰ کرنے والے خاموش کیوں بیٹھے جبکہ وزیراعظم کے ساتھ دفعہ ۳۷۰؍ سے متعلق فیصلے سے تین روز قبل فاروق عبداللہ ،عمرعبداللہ حسنین مسعودی نے ملاقات کے بعد مسلسل کل تک یہی دعویٰ کرتے رہے کہ وزیراعظم نے سوال کرنے کے باوجود اُنہیں دفعہ سے متعلق فیصلے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔لیکن اس ساری مدت کے دوران نہ دیویندر رانا اور نہ ہی آزاداپنے نئے دعویٰ کے ساتھ کبھی سامنے آئے۔
قطع نظر کچھ اور تیکھے سوالوں کے سیاست اور سیاست کی مصلحتیں ایک طرف کیا سیاسی نظریات اور سیاسی مفادات کی خاطر کردار کشی زیب دیتی ہے، کیا سیاستدان اپنے لئے کوئی ضابطہ اخلاق مرتب نہیں کرسکتے، پھر جہاں تک بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ رابطہ یا تعلق کا سوال ہے مرکز میں حکمران جماعت ہونے کی حیثیت کے ہوتے بھی کیا یہ کوئی سیاسی غدارانہ عمل ہے؟کیا بی جے پی اچھوت ہے کہ اس کے ساتھ ہاتھ نہیں ملایا جاسکتا یارابطہ قائم نہیں کیا جاسکتا ؟اگر بی جے پی کی قیادت کے ساتھ باپ بیٹا رابطہ میں ہے اور یہ کوئی بہت بڑا جرم یا سیاسی خیانت ہے تو پھر وہ لوگ جو پہلے دوسری پارٹیوں سے وابستہ تھے اور اب یا تو پارٹی جوائن کرچکے ہیں یا بہت قریب سمجھے اور دیکھے بھی جاتے ہیں تو کیا وہ جرم یا سیاسی خیانت نہیں؟
بے شک اس طرز کا سیاسی کلام نیشنل کانفرنس نے سید الطاف بخاری،سجاد غنی لون، غلام نبی آزاد وغیرہ کے بارے میں یہ کہکر شروع کیا ان کی حیثیت بی جے پی کی اے، بی اور سی ٹیموں کی ہے اور اب موقعہ ملتے ہی یہ جوابی یلغار پر اُتر آئے ہیں، قطع نظر اس کے کہ ان کے اس جوابی یا پلٹ وار میں سچائی کتنی ہے او رغلط بیانی کتنی ہے؟
اس بات سے کم وبیش سبھی اتفاق کرتے ہیں کہ کشمیرکے سیاسی حمام میں جو کوئی بھی سٹیک ہولڈر ی کا دعویدار ہے وہ ننگا ہے با لباس نہیں ، پارسائی، دیانتداری، خلوص، وفا شعاری، بے لوث وابستگی اس حمام میں موجود ننگوں کی سرشت میں نہیں ہے۔ بلکہ دھوکہ ، جذبات کا استحصال، گمراہ کن نعرہ بازی، ریاکاری، جعلسازی ، عہد شکنیاں ان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑ رہی ہیں۔ صدمہ تو یہ ہے کہ ابھی لوگوں کی اکثرت اپنی سادہ لوحی اور آنکھیں بند کرکے ان پر بھروسہ کی قید سے خود کو آزاد نہیں کر پارہی ہے۔