پارلیمنٹ نے جموں وکشمیر کیلئے عبوری بجٹ کی منظوری دی ہے جبکہ گذشتہ مالی سال کے دوران نظرثانی شدہ اخراجات سے متعلق بل کی بھی منظوردی ہے۔ پارلیمنٹ میں جموںوکشمیرکیلئے جو عبوری بجٹ پیش کیاگیا ہے اس کے کئی پہلو ہیں جو غور طلب بھی ہیں اور توجہ طلب بھی ہیں۔ کچھ کے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ ان مخصوص شعبوں میں ابھی بہتری اور ترقی کی بہت گنجائش موجود ہے جبکہ کچھ ایک کے بارے میں بھر پور توجہ مرکوز کرنے کی جو ابتدا ہوئی ہے اس کو اطمینان بخش قرار دیاجاسکتا ہے جبکہ ان کے تعلق سے یہ اُمید جگائی جاسکتی ہے کہ مخلصانہ، دیانتدارانہ اور بھر پور توجہ اور عمل آوری سے جموںوکشمیر کے متعدد معاملات اور مسائل از خود حل ہوسکتے ہیں۔
اس تعلق سے سرمایہ کاری کو بطور مثال لیاجاسکتا ہے ۔ بجٹ میں اس بارے میں جو اعداد وشمارات ظاہر کئے گئے ہیں سرمایہ کاری کے حوالہ سے وصول پیشکشوں کا حجم ۹۰ ؍ہزار ۱۸۲؍ کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے جو بادی النظرمیں ہی سرمایہ کاری کے شعبے میںایک ریکارڈ قرار دیاجاسکتا ہے۔ سرمایہ کاری کے تعلق سے ماضی میں جو منظرنامہ ہم دیکھتے آرہے ہیں اس کے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ وہ بحیثیت مجموعی مایوس کن رہا ہے۔
پبلک سیکٹر رہا ہو یا پرائیوٹ سیکٹر جموں وکشمیرمیں ۲۰۱۹ء سے قبل تک صفر عشاریہ صفر پانچ فیصد تک ہی سرمایہ کاری ہوسکی ہے۔ کشمیرمیں سرکاری سیکٹر میں قائم کچھ صنعتی یونٹ اپنے قیام کے محض چند برسوں کے اندر اندر ہی ریڈ میں چلے گئے جبکہ ان سے محض چند افراد ہی کو روزگار حاصل ہوسکا۔ جن کو روزگار ملا انہیں کئی کئی ماہ تک اپنی ماہانہ تنخواہوں کی وصولیابی کا انتظار کرنا پڑا۔ اس تعلق سے ہندوستان مشین ٹولز کی گھڑی ساز فیکٹری، محکمہ ٹیلی مواصلات کی ٹیلی فون فیکٹری، ایسے صنعتی شعبے سے وابستہ ادارے خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
پرائیوٹ سیکٹر بھی گاہے بہ گاہے سرمایہ کاری کے دعویٰ لے کر جلوہ گر ہوتا رہا، جموں کی کچھ صنعتی بستیوں میںاگر چہ بیرون جموںوکشمیر کچھ سرمایہ دار کار خانوں نے اپنے یونٹ قائم کرکے پیداوار بھی شروع کی اور کچھ حد تک مقامی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر رکھے لیکن کشمیرمیں کوئی بڑا سرمایہ کار ٹک نہیں سکا، بلکہ زبان زدہ کہا نیوں پر اگر بھروسہ کریں تو وہ تکلیف دہ ہی نہیں بلکہ ان کا طرزعمل اور طریقہ کار لٹیرانہ ہی رہا۔ ان میںسے کچھ نے کروڑوں کی سبسڈی اور دوسری قسم کی مراعات بھی وصول کئے لیکن کچھ ہی دیر تک اپنا جلوہ دکھا کر وہ منظر سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ان چند مخصوص سرمایہ کاروں کے تعلق سے سارا ریکارڈ متعلقہ سرکاری محکموںکے پاس آج کی تاریخ میںموجود ہونا چاہئے جو کروڑوں کی سبسڈی اپنے حلق سے نیچے اُتار کر راہ فرار حاصل کرنے میںکامیاب رہے جن میں بالی ووڈ کا ایک سرکردہ فلم ساز کا نام بھی لیاجارہاہے۔
بہرحال ماضی توماضی ہے اُس ماضی نے جو زخم دیئے ان کی ٹیس تو ابھی آنے والے ایام میں محسوس کی جاتی رہیگی۔ گڑے مردے اکھاڑنے سے اگر کچھ حاصل نہیں ہوگا البتہ ماضی کی غلطیاں سبق آموز ضرور ہوتی ہیں اور ان غلطیوں سے عبرت اس لئے حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ آگے اُس نوعیت کی غلطیوں کا غلطی سے بھی اعادہ نہ ہوسکے۔
سرمایہ کاری کے تعلق سے اب تک کے گذرے چند برسوں کے دوران ۵۳۱۹ ؍کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہوچکی ہے جبکہ ۹۰؍ ہزاور ۱۸۲؍ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی پیشکش حکومت کے پاس ہے۔ اس متوقع سرمایہ کاری کے نتیجہ میں آنے والے برسوں کے دوران ایک محتاط اندازہ کے مطابق زائد از ۴؍لاکھ افراد کو روزگار فراہم ہوگا۔ سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنے اور انہیں جموں وکشمیرمیں سرمایہ کاری کے لئے راغب کرنے کیلئے کئی ایک اقدامات اب تک اُٹھائے جاچکے ہیں جن میںپرائیوٹ انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ پالیسی، وول پراسسنگ ہینڈی کرافٹس ہینڈ لومز پالیسی، لینڈ الاٹمنٹ پالیسی خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان تمام اقدامات کا بُنیادی مقصد جہاں ’’میڈ ان جموںوکشمیر‘‘کو یقینی بنانے سے ہے وہیں مقامی نوجوانوں کو پائیدار روزگار کی فراہمی کی ضمانت سے بھی ہے۔
اس حوالہ سے یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ جموں وکشمیرمیں فی الوقت ۶۴؍ صنعتی بستیاں موجود ہیں جنہیںاب ترقی دی جارہی ہے جبکہ سرمایہ کاروں کی سمت میں بُنیادی خدمات اور سہولیات کے مقصد سے مزید نئی ۴۶؍ صنعتی بستیوں کو ترقی دینے کا عمل جاری ہے۔ ان نئی صنعتی بستیوں کیلئے متعلقہ اداروں کو زمین الاٹ کی جاچکی ہے اور بھی مزید اقدامات پائپ لائن میں ہیں۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء جب تنظیم نو کا اعلان کیا گیا تو ملک کے چند بڑے سرمایہ کاروںنے حوصلہ افزائی کی سمت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے اعلانات کئے۔ ان کے اعلانات کو اب تک چار، پانچ سال گذرنے کو آرہے ہیں یہ واضح نہیں کہ اُن میں سے کتنے سرمایہ داروںنے اپنے اعلانات کی لاج رکھ لی ہے یا سرمایہ کاری کی سمت میں کسی طرح کی کوئی پہل اب تک کی ہے۔
بہرحال اب جبکہ کشمیرکا ملک کے دوسرے حصوں کے ساتھ ریل کے ذریعے رابطہ قائم ہونے جارہا ہے ملک کے سرمایہ کاروں کیلئے یہ بھی ایک اچھی بلکہ بُنیادی سہولیت دستیاب رہیگی کیونکہ ریل اب آخری سرحد تک پہنچنے والی ہے ۔ ریل سروس قائم ہونے سے ڈھلائی کے اخراجات میں بھی بھاری کمی آنی چاہئے جبکہ ترسیلی مدت میں بھی نمایاں کمی ہوگی۔ واپسی پر مال کی ملک کی منڈیوں تک رسائی میںبھی اطمینان بخش حد تک سہولیات میسر رہینگی۔ لہٰذا کہاجاسکتا ہے کہ آنے والے ایام میں بحیثیت مجموعی سارا منظرنامہ خوشگوار تبدیلی کے ساتھ اُبھر کر سامنے آئے گا۔