نئی دہلی//
حکومت نے چہارشنبہ کے روز کہا کہ پاکستان کے ساتھ کچھ حد تک تجارت زمینی اور سمندری راستوں سے ہو رہی ہے لیکن پڑوسی ملک نے زمینی سرحد کے ذریعے تمام کاروبار کو یکطرفہ طور پر روک دیا ہے۔
مرکزی وزیر مملکت برائے تجارت و صنعت ‘انوپریا پٹیل نے لوک سبھا میں کہا کہ یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقے کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک کو ہندوستانی سامان کی رسائی دے۔
پٹیل نے کہا کہ پہلے جو بھی تجارت ہوتی تھی وہ اٹاری واہگہ بارڈر اور کراچی بندرگاہ کے ذریعے ہوتی تھی۔انہوں نے کہا’’اب زمینی راستے سے کوئی تجارت نہیں کی جا رہی ہے۔ لیکن کچھ تجارت سمندر اور ہوا کے ذریعے کی جا رہی ہے‘‘۔
وزیر مملکت نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ سمندری اور فضائی راستوں کے ذریعے یہ تجارت جواہر لال نہرو پورٹ ٹرسٹ، ان لینڈ کنٹینر ڈپو، تغلق آباد، مندرا ایس ای زیڈ، ایئر کارگو کمپلیکس ممبئی اور ایئر کارگو کمپلیکس حیدرآباد سمیت دیگر اداروں کے ذریعے کی جا رہی ہے۔
وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے امکانات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ تجارت بند نہیں کی ہے۔ جہاں تک وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کا تعلق ہے تو ہمارے کسی بھی تجارتی لین دین کا انتظام پاکستان کے ذریعے ہونا چاہیے۔ لہٰذا یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ تجارتی راستہ کھولے۔ پٹیل نے کہا کہ تجارت کی معطلی پاکستان کی جانب سے یکطرفہ طور پر عائد کی گئی ہے نہ کہ بھارت کی جانب سے۔
مرکزی وزیر مملکت نے کہا کہ اس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے کیونکہ ٹرانزٹ ان کے علاقے سے گزرنا ہوگا۔
خیال رہے کہ۲۰۱۹میں بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل۳۷۰کے خاتمے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت معطل کردی تھی اور اسلام آباد میں اپنے ہائی کمشنر کو ملک بدر کردیا تھا۔
بھارت کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ معمول کے ہمسایہ تعلقات کا خواہاں ہے اور اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ دہشت گردی اور دشمنی سے پاک ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد ہوتی ہے۔ (ایجنسیاں)