سرینگر//
کشمیر سے تعلق رکھنے والے معروف براڈ کاسٹر اور ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ یافتہ شاعر فاروق نازکی منگل کو انتقال کر گئے ۔ وہ ۸۳برس کے تھے ۔
خاندانی ذرائع کے مطابق فاروق نازکی نے کٹرہ کے نارائن ہسپتال میں زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ وہ طویل عرصے سے صاحب فراش تھے ۔
ذرائع نے کہا کہ علاج و معالجے کیلئے وہ کٹرہ میں تھے جہاں ان کا فرزند ایک بڑے سپر سپیشلٹی ہسپتال میں بحیثیت ڈاکٹر تعینات ہیں۔مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک فرزند اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق ان کے جسد خاکی کو تجہیز و تکفین کیلئے بذریعہ روڈ واپس سری نگر لایا جا رہا ہے ۔
۱۴فروری۱۹۴۰کو بانڈی پورہ میں جنم لینے کے والے فاروق نازکی نے اپنے کیرئر کا آغاز روز نامہ زمیندار میں ایک صحافی کی حیثیت سے کیا اور اس دوران وہ ایک کیجول نیوز ریڈر کے بطور بھی کام کرتے تھے ۔
بعد ازاں انہوں نے اپنی ذہانت و ذکاوت اور خداد صلاحیتوں سے کامیابی و کامرانی کے کئی محاذ سر کئے اور وادی کے صحافتی و ادبی افق پر ایک تابدار ستارے کی طرح روشن ہوگئے ۔
مرحوم نے۱۹۸۶سے۱۹۹۷تک دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دئے اور سال۲۰۰۰میں وہ دور درشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے بطور نوکری سبکدوش ہوگئے ۔
علاوہ ازیں وہ جموںکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے طویل عرصے تک میڈیا مشیر بھی رہے اور بعد ازاں ان کے فرزند عمر عبداللہ کے بھی کچھ وقت تک میڈیا ایڈوائزر رہے ۔
شعبہ صحافت میں اپنے ان مٹ نقوش چھوڑنے کے ساتھ ساتھ فاروق نازکی نے اردو اور کشمیری زبان میں طبع آزمائی کی اور دونوں زبانوں میں ان کی تخلیقات اور رشحات قلم کو ادبی حلقوں میں داد و تحسین حاصل ہوئی۔
۱۹۹۵میں انہیں کشمیری زبان کے ان کے شعری مجموعہ’نار ہتن کنزل وانس‘پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے سر فراز کیا گیا۔اس کے علاوہ ان کے اردو اور کشمیری زبان میں کئی مجموعے منظر عام آئے جن کو ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔
فاروق نازکی ایک کثیر الجہت شخصیت کے مالک تھے ۔ مایہ ناز شاعر اور کہنہ مشق ادیب ہونے علاوہ کشمیر میں ان کا شمار ٹی وی کے ایک پہل کار کے طور کیا جاتا ہے ۔
۱۹۷۲میں وہ جرمنی چلے گیا جہاں سے انہوں نے آیڈیو ویژول ٹیکنالوجی سیکھی اور اس کو یہاں متعارف کیا۔ادھر فاروق نازکی کی رحلت سے وادی کے علمی و ادبی حلقوں میں ماتم و مایوسی کا ماحول سایہ فگن ہے ۔