ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اپنے والد مرحوم شیخ محمد عبداللہ اور آنجہانی جواہر لال نہرو کے تعلق سے ایک حالیہ بیان پر کچھ حلقوں میںکافی لے دے ہوتی رہی، فاروق عبداللہ نے اصل میں کیا کہا اور کس تناظرمیں بات کی تھی اُس کو کس نے سیاق وسباق کے تناظرمیں درست سمجھا اور کس نے دوسری کسی مخصوص آنکھ سے دیکھنے اور اپنی فکر کے مطابق سمجھنے کی کوشش کی وہ ایک الگ موضوع ہے البتہ اُس دور کی تاریخ کے حوالہ سے پیش آمدہ معاملات اور حالات واقعات کا جب آج کی تاریخ میں مطالعہ کیاجاتا ہے یا پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اب اُس دور کی تاریخ سر نو لکھی جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ملک کا ایک مخصوص سیاسی فکر کا حامل حلقہ کشمیر کی صورتحال اور حیثیت کے حوالہ سے جواہر لال نہرو کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرارہاہے اور یہ تاثردینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نہرو نے کشمیر(سرحد کے اُس پار کشمیر سمیت) کے معاملات کو اچھی طرح سے ہینڈل نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو کشمیر نہ اقوام متحدہ کے ایجنڈا پر آتا اور نہ کشمیر کے ایک حصے پر پاکستان کا کنٹرول ہوتا۔ اس تعلق سے سردار پٹیل ایسے اُس دور کے چند قدآور لیڈروں کی سوچ، کرداراور اپروچ کا باربار حوالہ دیا جارہاہے اور دعویٰ کیا جارہاہے کہ نہرو نے من مانیاں کرکے ان قدآور لیڈروں کی ایک نہ مانی اور نہ ان کا کوئی مشورہ قبول کیا۔
یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو براہ راست کشمیرکے حوالہ سے ہے۔ ۵۲ء …۵۳ء میں اقتدار سے شیخ محمدعبداللہ کی برطرفی اور پھر سالہاسال تک ان کی گرفتاری کے دفاع میں یہ دلیل پیش کی جاتی رہی کہ شیخ محمدعبداللہ بیرونی ممالک کے زیر اثر آکر کشمیر کے الحاق کو ختم کرکے ایک آزاد اور خودمختارمملکت کے طور تشکیل دینا چاہتے تھے۔چنانچہ ان کے خلاف ایک سازش کیس کا تانا بانا تیار کرلیاگیا، عدالت میں حضرت بل سازش کیس نامی اس مقدمہ کی سماعت کئی سال تک ہوتی رہی جس دور ان سماج کے مختلف حلقوں سے وابستہ اُس دور کے بیروکریٹوں، مختلف سیاسی نظریات کے حامل افراد، کشمیر میں صحافت کی دُنیا میں ایک نوآموز اور سرحد کے اُس پار سے جلاوطن ایک صحافی، پولیس کے کئی آفیسران وغیرہ نے شہادتیں پیش کیں لیکن بالآخر تھک ہار کر اپنے جھوٹ کو ثابت نہ کرنے پر ہزیمت کا جھومر اپنے ماتھے پر سجا کر حکومت وقت نے اُس سازش کیس کو واپس لے لیا۔
یہ ایک نریٹو ہے جس کا تعلق اُس مخصوص دور سے رہا ہے جس نریٹو کو سالہاسال تک سچ پر محمول قرار دے کر پیش کیاجاتا رہا۔ لیکن اب ایک نیا نریٹو سامنے آیا ہے۔ ایک تاریخ دان خاتون چتر لیکھا زتشی ایک نئی سوانح حیات بعنوان ’’شیخ محمدعبداللہ ،پنجرہ بند شیر‘‘کے ساتھ منظرعام پر آئی ہے جس میں شیخ محمدعبداللہ کی شخصیت ،سیاست، مقبولیت اور رول کے بارے میں کچھ نئی لکیریں کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلا ً اقتدار سے بے دخلی اور گرفتاری کے پس منظر کے بارے میں کتاب میں دعویٰ کیاگیا ’’عبداللہ کو برطرف نہ کیاجاتا تو وہ اُس سال عید کی تقریب پر اجتماع سے خطاب کے دوران اعلان کرتے کہ نہرو نے ان کی مسلسل اور متواتر درخواستوں کے باوجود کشمیرمیں تحریک پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی‘‘۔ یہ تحریک کیا تھی اور کون اس کو چلا رہا تھا۔ کتاب کے منصفین کے مطابق یہ تحریک پر جا پریشد نے شروع کی تھی جس پر نہرو شیخ عبداللہ سے بار بار یہی کہتا رہا کہ دہلی آجائو اور انہیں (نہرو کو) پر جا پریشد کی ایجی ٹیشن کے بارے میں قائل کریں۔
سوال یہ ہے کہ ۵۳ء کے واقعات کے تعلق سے پہلا نریٹو صحیح تھا یا دوسرا نریٹو جو اب سامنے لایا جارہاہے۔ ان دونوں نریٹوز کی صداقت اور تاریخ کے جھروکوں کے حوالوں سے اصل سیاق وسباق پر آگے بھی ابھی بحث ہوتی رہیگی، سیاسی مفادات اور سیاسی نظریات اور اہداف کے تعلق سے دعویٰ اور جوابی دعویٰ بھی آتے رہینگے لیکن بُنیادی نقطہ ، جس پر کسی کو انکار نہیں ہوسکتا اور نہ انکار کی گنجائش ہے، یہ ہے کہ کشمیرمیں سیاسی اور معاشرتی سطح پر بے چینی ، عدم استحکام اور سیاست کا منظرنامہ تبدیل ہونے کا آغاز ہوا۔
۱۹۴۷ء سے ۵۳ء تک کشمیر پر امن خاموش اور الحاق کو سراپا تسلیم کرکے اپنے مقدر کے تعین کے حوالہ سے مطمئن رہا۔ لیکن کانگریس کی لیڈر شپ نے نہرو کی سرپرستی میں عہد شکنی کی بُنیاد ڈالی، پھر آنے والے برسوں میں نہرو کے جانشینوں نے اُس عہد شکنی کو ہمالیہ کا آکار ہی عطانہیں کیا بلکہ کشمیری عوام کے جمہوری اور آئینی حقوق کو بتدریج سلب کرکے کشمیرکو ایک اشو بناتے ہوئے پاکستان کی جھولی میں ڈالدیا جس نے کشمیر کے تعلق سے اپنے ایجنڈا اور اہداف کی تکمیل کے لئے اسے اپنے لئے پلیٹ پر سجا سجا یا آکسیجن قراردیا اور استعمال بھی کیا۔
فاروق عبداللہ، اوروں کی جماعت نیشنل کانفرنس کو اگر ان تاریخی حقائق کا ادراک ہونے کے باوجود کانگریس کے ہاتھوں اس عہد شکنی کا احساس نہیں اور وہ نہرو کو غلط نہیں سمجھ رہے ہیں بلکہ برعکس اس کے خود اور اپنی پارٹی کو موجودہ کانگریس کا ہی دم چھلہ اور اندھا بھگت کے طور پیش کرنے کی ضد پر قائم ہے تو یہ اس کی صوابدید ہے ، لیکن کشمیر کی تاریخ کا وہ دورتاریخ کا ان مٹ حصہ ہے، چاہئے اُس دور کے تعلق سے نریٹو ز کچھ ہی کیوں نہ ہوں، حقیقت یہی ہے کہ الحاق کے فوراً بعد اگر اندھی سیاسی مصلحتوں سے مطیع کشمیر پالیسی کو اختیار نہ کیا گیا ہوتا، کورپشن اور غیر جمہوری راستوں پر چلتے کشمیر یوں کے جمہوری اور آئینی حقوق سلب کرنے کا راستہ اختیار نہ کیا ہوتا اور بخشی مرحوم کی سرپرستی میں غنڈہ گردی، لوٹ، کورپشن ، اقربا نوازی کے دور کی کھلی چھوٹ نہ دی گئی ہوتی اوران ساری سیاہ کاریوں کو پردوں کی اوٹ میں چھپانے کیلئے غیر اخلاقی راستے اختیار نہ کئے گئے ہوتے تو آج ۳۳؍ سال سے کشمیر لہو رنگ نہ ہوتا بلکہ ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح ترقی ،خوشحالی اور امن وسلامتی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوتا۔