کیف//
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے جمعرات کو ایک ایسے وقت میں جنگ بندی کو مسترد کر دیا جب ان کا ملک روسی فوج کا سامنا کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کریملن کی افواج یوکرین کی افواج کو شکست دینے کے لیے دوبارہ مسلح ہونے اور دوبارہ منظم ہونے کے لیے وقفے کا فائدہ اٹھائیں گی۔
زیلنسکی نے ایسٹونیا کے دورے کے دوران کہا کہ "یوکرین کے میدان جنگ میں ایک وقفے کا مطلب جنگ میں وقفہ نہیں ہوگا۔ ایک عارضی وقفہ اس کے (روس) کے مفاد میں ہوگا اور بعد میں ہمیں کچل سکتا ہے”۔
روس کی جانب سے 2022 میں یوکرین میں فوجی آپریشن شروع کرنے کے بعد سے وقتاً فوقتاً محدود جنگ بندی کی تجاویز پیش کی جاتی رہی ہیں، لیکن انہوں نے کبھی تسلیم نہیں لیا۔
دونوں فریق 22 ماہ کی لڑائی کے بعد اپنے ہتھیاروں کو دوبارہ بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں طویل مدتی تصادم کے امکان کا سامنا ہے۔ اس جمود کو دیکھتے ہوئے کہ فرنٹ لائن جو کہ تقریباً 1500 کلومیٹر لمبی ہے۔ زیادہ تر موسم سرما کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ دونوں کو توپ خانے کے گولوں، میزائلوں اور ڈرونز کی ضرورت ہے تاکہ وہ طویل فاصلے تک جنگ لڑ سکیں۔
زیلنسکی نے کہا کہ ماسکو کو شمالی کوریا سے توپ خانے اور میزائل اور ایران سے ڈرون ملتے ہیں۔ 4 جنوری کو وائٹ ہاؤس نے امریکی انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے کہا کہ روس نے شمالی کوریا سے بیلسٹک میزائل حاصل کیے ہیں اور وہ ایران سے حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
زیلنسکی دو روزہ دورے کے ایک حصے کے طور پر اسٹونیا کے دارالحکومت ٹالن پہنچے۔اس دوران انہوں نے بالٹک ریاستوں کا دورہ کیا، جو یوکرین کی سب سے مضبوط حامی ہیں ریاستی قرار دی جاتی ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم کایا کالس سے ملاقات کی جنہوں نے انہیں ایک ٹی شرٹ دی جس میں اسٹونین لفظ "دفاع کا عزم ” الفاظ لکھے تھے۔اسے زیلنسکی نے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران پہنا تھا۔زیلنسکی نے اسٹونین پارلیمنٹ میں کہا کہ "ظالم کو شکست ہونی چاہیے۔دوسری جانب یوکرین کی سرحد سے متصل بیلگوروڈ کے روسی گورنر نے جمعرات کو کہا کہ ان کا خطہ یوکرین کی حالیہ بمباری کے نتیجے میں "مشکل دور” سے گذر رہا ہے۔
بچوں سمیت سینکڑوں رہائشیوں نے حملوں کے بعد علاقے کا دارالحکومت چھوڑ دیا جس میں 20 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔
گورنر ویاچسلاو گلادکوف نے ماسکو میں ایک نمائش کے دوران کہا کہ بیلگوروڈ کا علاقہ مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مزید حملوں اور گھروں کی تباہی کے خطرے کی وجہ سے سرحد کے قریب اسکولوں نے فاصلاتی تعلیم کی طرف رخ کر لیا ہے۔