سیاستدانوں کے بارے میں عمومی تاثریہ ہے کہ وہ ’’طوطہ چشم ‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک تاثر ہے کہ ان کا ظاہر ایک ہے اور باطن کچھ اور ۔ یہ تاثر بھی ہے کہ اپنا سیاسی قد بڑھانے یا خود کو قدآور سیاستدان کے طور پیش کرنے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں یہاں تک کہ بعض معاملات میں وہ مافیاز جیسا کردار کے حامل بھی بن جاتے ہیں۔ کوئی کنٹروورشل بیان سامنے آجائے تو عوامی ردعمل دیکھ کر ایک اور بیان کے ساتھ یہ کہکر جلوہ گرہوجاتے ہے کہ بیان تو میڈیا نے سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا یا مذکورہ بیان ’’میرا ذاتی ہے جس کا تعلق حکومت (اگروہ) وزیر ہو یا پارٹی سے نہیں ہے۔
دُنیا کے کسی بھی خطے سے وابستہ سیاستدانوں کے قبیلوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو ان کی یہی یا انہی سے مشابہہ ان کی شبیہہ دکھائی دیتی ہے۔ بیان بدلنے میں وہ ید طولیٰ بھی رکھتے ہیں اور لوگوں کو بے وقوف سمجھنے میں وہ فطرتی مجسمہ ہیں۔ کشمیرکے مخصوص سیاسی منظرنامہ کے حوالہ سے بات کی جائے تو ہمیں اس فکر اور کردار کے حامل کئی سیاستدان نظرآرہے ہیں۔
بہرحال زمینی سچ یہی ہے کہ سیاست اب ایک پیشہ بن چکی ہے، یہ خدمت خلق کی حدود و قیود اور جذبہ سے باہر آچکی ہے۔ لوگوں کی اکثریت بھی سیاستدانوں کی اس حقیقت کو سمجھنے لگی ہے۔ لہٰذا اب سیاستدانوں کے آئے روز کے بدلتے بیانات اور بدلتے کوٹوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیاجارہا ہے کیونکہ یہ تسلیم کیاجارہاہے کہ اوسط شہری کی طرح سیاستدان کو بھی معاش کی تلاش اور ضرورت ہے، وہ کفال کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور اس کا بھی اہل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ چڑھتے سورج کے فن سے واقف ہے جبکہ لوگ اس فن سے ناواقف ہیں۔
کشمیر میں اس وقت سیاسی کوٹ اُتار کرنئے کوٹ پہننے کی لہر چل رہی ہے۔ ایک پارٹی کو داغ مفارقت دے کر کل تک عوام کی دُشمن اور استحصالی قرار دی جاتی رہی پارٹی کی مالا کو اپنے گلے کا ہار بنانے کی دوڑ جاری ہے۔ اس تناظرمیں سابق نائب وزیراعلیٰ مظفر حسین بینگ صاحب نے بھی اس دوڈ میں حصہ لیا اور واپس مرحوم مفتی سعید کی پارٹی میںپناہ گزین ہوئے۔اس گھر واپسی کے حوالہ سے ان کا کہنا ہے کہ وہ پارٹی ( پی ڈی پی ) چھوڑ کر نہیں گئے تھے البتہ ان چند برسوں کے دوران سیاسی سطح پر غیر فعال رہے تھے۔ حالانکہ پی ڈی پی سے کنارہ کش ہونے اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس میںشمولیت اختیار کرتے وقت ان کا کہنا یہی تھا کہ وہ اپنے اصلی گھر واپس آئے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ وہ کیوں پی ڈی پی میںواپس آئے ہیں اور پی ڈی پی کی قیادت نے انہیں پھر سے کیوں قبول کیا ہے اس پر کئی حلقوں میںبحث ہورہی ہے۔ جو کچھ کہا جارہا ہے اُس میں سے کچھ تو اصولی سیاست اورکچھ تو اخلاقی اقدار کے منافی قراردیاجارہاہے جبکہ کچھ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ محبوبہ مفتی کا کالعدم شدہ دفعہ۳۷۰؍کے بارے میں اب تک جو کچھ بھی بیانیہ اور موقف سامنے آتارہا ہے وہ مظفر حسین بیگ کے بیانیہ اور موقف سے کسی بھی اعتبار سے مطابقت یا ہم آہنگ نہیں رکھتا ۔ اس تعلق سے یہ بحث بھی ہے کہ کیا محبوبہ مفتی نے مظفر بیگ کو اس مخصوص اشو پر اپنے بیانیہ او رموقف کا قائل کرلیا ہے یا مظفر بیگ نے محبوبہ کو اپنے موقف سے قائل کرلیا ہے۔
کچھ حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ چونکہ پارلیمانی الیکشن کی آمد آمد ہے، مظفر حسین بیگ کو ایک تسلیم شدہ سیاسی پلیٹ فورم کی ضرورت تھی جس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے اس نے پی ڈی پی کا راستہ اختیارکیا۔ اس کے برعکس یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پی ڈی پی گپکار الائنس اور ملکی سطح پر اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ میں وہ اپنے لئے نمائندگی حاصل کرے۔ چنانچہ اس کا نشانہ جہاں اننت ناگ …پونچھ پارلیمانی حلقہ ہے وہیں بارہمولہ کپوارہ پر مشتمل پارلیمانی حلقہ پر اپنا دعویٰ داغنے کیلئے مظفر بیگ کیلئے دروازہ کھولدیا۔لیکن ان سارے سوالوں، قیاس آرائیوں اور اٹکلیوں کے درمیان ایک اور خیال یہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ پی ڈی پی اب حکمران جماعت کے ساتھ معاملات طے کرکئے قربت حاصل کرنا چاہتی ہے جس کیلئے مظفر حسین بیگ قابل اعتماد اور ثمرآور کردار اداکرسکتا ہے ۔ بہرکیف آنے والے ایام میں یہ بحث ہوتی رہیگی جبکہ پی ڈی پی کی کوشش یہی ہے کہ وہ ان سبھی لوگوں کو واپس پارٹی میں شمولیت کیلئے آمادہ کریں جو انتہائی مشکل حالات میں پارٹی کا جنازہ پڑھ کر اپنے نئے راستوں پر روانہ ہوتے رہے ہیں۔
کون سیاستدان کس پارٹی کا ہار اپنے گلے میں پہن کر اِدھر اُدھر اُچھلتا کودتا نظرآئے یا کس پارٹی کے سٹیج سے جلوہ گر ہوتا رہے اس سے زیادہ غرض نہیں کیونکہ کم وبیش ساری سیاسی پارٹیوں کا چہرہ اور لباس ایک جیسا ہی ہے البتہ کشمیرکو کچھ ایسے سیاست کاروں کی ضرورت ہے جوکشمیرکے درد اور مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ رہا ہو، زبانی جمع خرچی نہیں اور نہ ہی اس حوالہ سے جذباتی اورگمراہ کن نعرہ بازی کی، کشمیر کو فی الوقت پاکستان کی وکالت کی ضرورت ہے اور نہ اکسائی چین سمیت لداخ کے کچھ حصوں پر چینی دراندازی اور ناجائز قبضے پر بحث وتکرار اور بیان بازی کی کیونکہ ان دونوں معاملات کا تعلق ملک کی خارجہ پالیسی سے ہے اور معاملات بھی ملک کے داخلی معاملات کے دائرہ میںآتے ہیں۔
کشمیر مجموعی طور سے بیروزگاری سے جھوج رہا ہے، مارکیٹ پر لٹیرانہ ذہنیت کے مافیاز کا کنٹرول ہے، ادویات کے نا م پرلوگوں کو زہر کھلایا جارہا ہے، زمین پائوں تلے سے کھسکتی جارہی ہے، سماج جرائم اور بدعات کے بوجھ اور حجم تلے دب رہا ہے، اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالا جارہاہے، سیاست میں خباثت کے کیڑوں کو پروان چڑھایا جارہاہے، لیکن یہ اور کئی دوسرے مسائل اور معاملات پر کسی بھی سیاسی قبیلے کو فکر وتشویش نہیں، صرف اور صرف حصول اقتدار کی تڑپ ہے اور اس تڑپ میں دن رات الیکشن منعقد کرائے جانے کی راگنی کا الاپ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ اگرچہ الیکشن کا تعلق لوگوں کے جمہوری حقوق سے ہے لیکن جو سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں الیکشن کے لئے ترس رہی ہیں وہ ان سماجی اشوز پر مہر بہ لب کیوںہیں