تہران//
ایران کے صدر نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران کی برآمدات ان کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے دوگنی ہوچکی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ برس اگست میں منصبِ صدارت سنبھالا تھا۔
ابراہیم رئیسی نے یہ دعویٰ سرکاری ٹیلی وژن کو دیےگئے ایک انٹرویو کے دوران کیا۔ انہوں نے اس بارے میں تفصیلات یا تیل کی برآمدات کے اعدادوشمار نہیں دیے۔
بقول ان کے ’’تیل کی فروخت دوگنی ہوچکی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایران تیل کی فروخت کے معاملے پر پریشان نہیں ہے۔
رئیسی کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ماسکو کے یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ممالک تیل کے دوسرے ذرائع دیکھ رہے ہیں۔ ایران کا خام تیل روسی خام تیل کے معیار سے ملتا جلتا ہے اور عالمی منڈی میں اس سے مسابقت رکھتا ہے۔
جنگ کی وجہ سے رسد کے بارے میں بے یقینی ہے جس کی وجہ سے تیل کی قیمتیں گزشتہ کئی برسوں کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ مارچ میں برینٹ خام تیل کی قیمت 140 ڈالر فی بیرل کے قریب پہنچ چکی تھی جس کی وجہ سے روس پر لگائی گئی پابندیوں پر عمل درآمد مشکل ہوگیا تھا۔ برینٹ کی قیمت پیر کے روز 105 ڈالر فی بیرل تھی۔تیل کی طلب میں اضافہ ایران کے سرکاری خزانے کے لیے خوش خبری ہے۔ ملک کا کہنا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کے باوجود اربوں ڈالر زائد کا تیل بیچ رہا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایران نیوز کے مطابق ایران کے مرکزی بینک کی جانب سے فروری کے اوائل میں جاری کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق، اس سال نصف ایرانی برس کے دوران ملک نے 18.5ارب ڈالر کا تیل فروخت کیا ہے۔ گزشتہ برس اسی مدت کے دوران تیل کی فروخت محض 8.5ارب ڈالر تھی۔ اس میں سے اکثر تیل چین کو برآمد کیا گیا۔ وینیزویلا میں بھی کچھ ایرانی تیل کے ٹینکر پہنچے ہیں۔
ایران کے تیل کے وزیر جواد اوجی نے مقامی میڈیا کو اپریل میں بتایا کہ رئیسی کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے تیل کی برآمد میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
چار برس قبل تب کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ مغربی ممالک کے 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا تھا اور ایران پر سخت معاشی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ایران کا تیل کا سیکٹر بھی ان پابندیوں کی زد میں آیا تھا جس کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت دباؤ کا شکار ہے۔
اس جوہری معاہدے کی بدولت ایران نے جوہری افزودگی کو محدود کرنے کی شرط مانی تھی جس کے بدلے اس کی معیشت پر سے پابندیاں ہٹائی گئی تھیں۔ اس کی وجہ سے ایران کے خام تیل پر عائد پابندیاں بھی اٹھالی گئی تھیں۔
اس معاہدے کے احیاء کے لیے جاری کوششوں کے سلسلے میں ویانا میں ہونے والے مذاکرات رواں برس مارچ کے دوران کسی نتیجے پر پہنچنے کے قریب تھے، لیکن کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ مذاکرات کار ابھی تک آسٹریا کے دارالحکومت میں مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے بیٹھے نہیں ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ رواں ہفتے کے دوران ڈیڈ لاک ختم کرنے کی آخری کوشش کے سلسلے میں یورپی یونین کے کوآرڈینیٹر تہران کا دورہ کریں گے۔
ایران نے پابندیوں کی شکار اپنی خام تیل کی انڈسٹری کو مذاکرات کا بنیادی نکتہ قرار دیا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ اس کے خام تیل کی فروخت پر عائد تمام پابندیاں ہٹائی جائیں اور اسے تیل کی فروخت میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہ رہے۔