پارلیمنٹ میں جموں وکشمیر کے تعلق سے پیش کچھ ترمیمی مسودوں پر بحث کے دوران حکمران جماعت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان زبردست نوک جھونک بھی ہوئی، گرم گفتاری بھی ہوئی، حکومت اور الیکشن کمیشن کو آڑے ہاتھوں بھی لیاگیا جبکہ حکومت سے وابستہ ارکان نے پلٹ وار کرکے اپوزیشن کو دیوار تک دکھیلا۔
اپوزیشن سے وابستہ کچھ ارکان نے آئینی شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے حکومتی اقدامات اور فیصلوں کو ہدف تنقید بنایا جبکہ کچھ نے یہاں تک رائے دی کہ فیصلے اور اقدامات غیر جمہوری اور غیر آئینی ہیں۔ کچھ نے حکومت کو مشورہ دیا کہ معاملات چونکہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ؍التوا میں ہیں لہٰذا حکومت کیلئے لازم تھا کہ وہ فیصلہ آنے تک انتظار کرتی کیونکہ جن معاملات کو عدالت عالیہ میں چیلنج کیاگیا ہے ان پر عدالت عالیہ کے سامنے مختلف حلقوں کی طرف سے حق اور مخالفت میں اپنے دلائل پیش کئے۔ اس تعلق سے مسودہ بل کی رئو سے آبادی کے کچھ حلقوں کیلئے اسمبلی میں ریزرویشن ؍نامزدگی وغیرہ کے تعلق سے لیفٹیننٹ گورنر کو تفویض کئے جارہے اختیارات کو غیر جمہوری، غیر آئینی بلکہ غیر اخلاقی حد تک قراردیاگیا۔
سب سے زیادہ گرم گفتاری دو مخصوص معاملات پر ہوئی۔ ایک کاتعلق اسمبلی الیکشن جبکہ دوسرے کا تعلق ۵؍اگست کے بعد سے اب تک حاصل کامیابیوں اور پیش رفت کے حکومتی دعوئوں کی زمینی حقیقت سے ہے۔ الیکشن کے بارے میں وزیراعظم کے دفترمیں وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ، جن کا تعلق جموں سے ہے اور حکمران جماعت کے جموں نشین قدآورلیڈروں میںشمار کئے جارہے ہیں نے ایوان کو بتایا کہ الیکشن کے انعقاد یا عدم انعقاد کے تعلق سے حکومت کا کوئی رول یا عمل دخل نہیں، یہ الیکشن کمیشن کے حداختیار میں ہے، البتہ الیکشن کمیشن جب بھی چاہئے حکومت ۷x۲۴ x۳۶۵ کسی بھی وقت الیکشن کے لئے تیار ہے۔ تاہم واضح کیا کہ الیکشن کمیشن کو الیکشن کے تعلق سے اپنی ضروریات کے مطابق معلومات حاصل کرنے کا اپنا مخصوص طریقہ کار ہے۔
اس مخصوص اشو پر اپوزیشن سے وابستہ جن ارکان نے بحث میں حصہ لیا ان میں سے اکثر نے یہ سوال کیا کہ اگر حکومت مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ جموں وکشمیرمیںامن وامان کی حالت میں بہتری آئی ہے، تو اسمبلی کیلئے انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں کیوں حائل کی جارہی ہیں۔ اگر حکومت الیکشن کمیشن کے کام کاج میںمداخلت نہیں کرتی تو پھر الیکشن کمیشن الیکشن نہ کرانے کی وجہ کیوں ظاہر نہیں کررہا ہے جبکہ پارلیمانی الیکشن کیلئے جموںوکشمیر میں ہرطرح کی تیاری کی جارہی ہے۔ مطالبہ کیاگیا کہ حکومت اسمبلی الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے وقت کی نشاندہی کرے۔
ریاستی درجہ کی بحالی کا معاملہ بھی زیر بحث رہا۔ اراکین نے حکومت کی اُن یقین دہانیوں کا حوالہ دیا جو اس ضمن میں ایوان کے اندر اور ایوان کے باہر یہ کہکر دی جاتی رہی ہے کہ مناسب وقت پر ریاستی درجہ بحال کرلیاجائیگا۔ کئی ممبران بشمول کانگریس کے منیش تیواری نے اس سلسلے میں بعض آئینی شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کسی بھی سٹیٹ کو تقسیم کرکے یوٹی کا درجہ دینے کی گنجائش نہیںلیکن ریاست جموںوکشمیر کو نہ صرف دو حصوں میںتقسیم کردیاگیا بلکہ درجہ گٹھا کر یوٹی بنایاگیا۔
بحیثیت مجموعی اراکین اپوزیشن اور اراکین حکومت کے درمیان اس گرم گفتاری اور بحث وتکرار کواظہار رائے کی آزادی کے حق سے کہیںزیادہ جمہوری طرزعمل اور جمہوری مزاج کا آئینہ دار تصور کیا جارہا ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور سے لداخ سے حکمران جماعت کے رکن نے الیکشن کے انعقاد کے خلاف رائے دی اور کہا کہ ’’جموں وکشمیرمیں امن انتخابات سے زیادہ اہم ہے‘‘۔ ممبر موصوف کی یہ رائے زنی ان کی فرسودہ ذہنیت اور جنون پر ستانہ فکر وعمل کا عکس سمجھا جارہاہے۔ جو لوگ خود الیکشن ہی کے راستے سے اور الیکشن کا ہی زینہ استعمال کرکے ملک کے اعلیٰ ایوان تک پہنچ گئے اور رکنیت حاصل کرلی ان کی طرف سے دوسرے لوگوں کو اس جمہوری راستے سے محروم رکھنے اور غلط اور فرسودہ ذہنیت سے عبارت اظہار رائے کو سیاسی جاہلیت ہی تصور کیا جانا چاہئے۔
بحث کے دوران مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے کئی بار مداخلت کی اور کچھ معاملات پر جن کا حوالہ ممبران دیتے رہے پر وضاحت دیتے رہے۔ ایک مرحلہ پر وزیر داخلہ نے مغربی بنگال سے کمیونسٹ پارٹی کے منتخب رکن پروفیسر رائے کے اس ریمارک کہ ایک پردھان، ایک وودھان کا نعرہ سیاسی تھا پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نعرہ سیاسی نہیں تھا بلکہ ایک ملک کے ہوتے دو وزیراعظم ، دوجھنڈے اور دو آئین کیسے ہوسکتے ہیں۔ وزیرداخلہ نے پروفیسر رائے کے اس ریمارک کو ان کی ’’عمر کا تقاضہ‘‘ قراردیا۔
ایوان میں بحث کے دوران نیشنل کانفرنس کے دوارکان ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور حسنین مسعودی موجود رہے اور اراکین کی تقریروں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ البتہ کشمیر سے اس پارٹی کا تیسرا رکن اکبر لون ایوان کی کسی صف میں بیٹھے نظرنہیں آئے۔
قطع نظر اس بات کے کہ ایوان میں کس نے کیا کہا، وزیرداخلہ کی جانب سے ایوان میں ممبران کی طرف سے اُٹھائے گئے اشوز ، کئے گئے سوالات اور مختلف تجاویز کو جواب دینے کے بعد ترمیمی مسودوں کو منظور ی حاصل ہوگی اور اس طرح جموں وکشمیر کے تعلق سے آبادی کے مختلف طبقوں کی خواہشات کی تکمیل کاراستہ بھی ہموار ہوگا۔ البتہ تنقیدی جائزے اور تنقیدی سوالات اپنی جگہ برقرار رہینگے۔ کاروان آگے بڑھتا رہے گا اور جس راستہ پر جموں وکشمیر کو گامزن کیا جارہا ہے اُس راستے پر سفر بھی بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رہے گا۔
اسمبلی کے لئے انتخابات کب ہوں گے، پارلیمنٹ کے انتخابات کے ساتھ ہوں گے، اس سے قبل ہوں گے یا بعدمیں، ریاستی درجہ کب بحال ہوگا، ہوگا بھی کہ نہیں اور پھر اسمبلی انتخابات اگر ہوں گے تو جو حکومت اقتدار میں آجائیگی اُس حکومت کے پاس کس حد تک اختیارات ہوں گے، فیصلہ سازی کی حدود کیا ہوں گی، یہ وہ سوالات ہیںجن کا فی الوقت کوئی جواب نہیں اور نہ ہی حیرت کی حد تک کوئی سیاسی پارٹی یہ سوالات زبان پر لارہی ہے، وہ صرف الیکشن کے انعقاد کی بات کررہے ہیںکیونکہ انہیںیقین ہے کہ الیکشن کے انعقاد کے حوالہ سے اقتدار کا کچھ نہ کچھ حصہ ان کی جھولیوں میں بھی آگرے گا۔ کیجریوال بھی تو اختیارات کے بغیر وزیراعلیٰ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔