اس میں اب دو رائے نہیں کہ چناب خطے کی سڑکیں بحیثیت مجموعی موت کا کنواں بن چکی ہیں۔ ان سڑکوں پر آئے روز ہلاکت خیز ٹریفک حادثات اس کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ ان ٹریفک حادثات اور ان میں قیمتی انسانی زندگیوں کا اتلاف نہ صرف متعلقہ لواحقین کیلئے زندگی بھر کا روگ بن چکا ہے بلکہ انتظامیہ کے متعلقہ اداروں سے وابستہ ملازمین، چاہئے بڑا آفیسر ہو یا ادنیٰ کا ضمیر اس قدر بے حس، بے اعتنا اور مردہ ہوچکا ہے کہ اب ان جان لیوا حادثات پر ان کی آنکھ نہ نم دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی افسوس اور شرمندگی کا کوئی اظہار نظرآرہاہے۔
حالیہ برسوں کے دوران اس خطے کی سڑکوں پر جب جب بھی حادثہ ہوا حادثات کے ذمہ دار محرکات اور وجوہات کی نشاندہی کی جاتی رہی۔ چاہئے ذمہ دار ٹریفک مینجمنٹ سے وابستہ ادارہ ہے ، ٹرانسپورٹ آپریٹر اوران کی لالچ، تیز رفتار ڈرائیونگ کی لت میں مبتلا ڈرائیور، اور لوڈنگ کا راستہ اختیار کرنے والے مالکان، سڑکوں کی دیکھ ریکھ کے ذمہ دار محکمے یا اور کوئی لیکن گذرے ۷۵؍برسوں کے دوران ایک بھی اصلاحی قدم نہیں اُٹھایا گیا ۔
سب سے زیادہ مجرمانہ اور گھٹیا رول جموں کی صوبائی انتظامیہ کا رہا ہے۔ جس نے گذری دہائیوں کے دوران خطے میں سڑکوں کی بہتری، کشادگی اور ٹریفک نظم ونسق کو انسان دوست بنانے کی سمت میں کوئی ذمہ دار رول ادانہیں کیا، خطے کیلئے مختص بجٹ تجاویز میں بھی ان امورات کی طرف کوئی خاص توجہ مبذول نہیں کی بلکہ خطے میں بحیثیت مجموعی یہ تاثر زبان زد آج کی تاریخ میں بھی عام ہے کہ خطے کے ساتھ جموں کی صوبائی انتظامیہ نہ صرف منافقت سے کام لیتی آرہی ہے بلکہ خطے کے ساتھ سوتیلا سلوک بھی روا رکھا جاتا رہا۔
گذشتہ دو پارلیمانی انتخابت کے دوران جموں کی دو نشستوں سے ڈاکٹر جتیندر سنگھ او ر جگل کشور منتخب ہوتے رہے اور آنے والے الیکشن کے حوالہ سے بھی یہی ممکنہ اُمید وار ہوسکتے ہیں لیکن انہوںنے بھی اس اہم اشو کی طرف اب تک کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی خطے کی سڑکوں پرٹریفک نظام کی سمتیں درست کرنے کیلئے کوئی ذمہ دارانہ رول اداکیا ہے۔
سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد ساڑھے تین سال تک جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ رہے جبکہ باقی ماندہ مدت کے دوران وہ پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے اور ایوان بالا کے پارٹی لیڈر کی حیثیت سے بھی کردار نبھایا لیکن پشتینی ہونے کے باوجود انہوںنے بھی اس سنگین صورتحال پر قابو پانے اور خطے کے عوام کیلئے عبورومرور اور ٹریفک نظم ونسق میں بہتری کیلئے کوئی خاص توجہ نہیں دی، اب بے شک یہ نعرہ ان کی زبان سے سنا جارہا ہے کہ وہ اگر اقتدار میں آئے تو خطے کو جموں وکشمیر میں ترقی کے حوالہ سے ایک ماڈل کے طور ترقی دیں گے۔ دور کے ڈول سہاونے۔
خطے کی آبادی کی ایک بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ خود موجودہ ایڈمنسٹریشن نے ٹریفک کے بڑھتے اور ہلاکت خیز حادثات کے تناظرمیں زمینی اور سڑکوں کی حالت اور ہیت کا گہرائی سے جائزہ لینے کیلئے کچھ مدت قبل ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی، کمیٹی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ اپنی تجاویزات اور سفارشات کے ساتھ حکومت کو پیش کی، لیکن اس رپورٹ کو بھی عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ،ا س تعلق سے جو کچھ جانکاری عوامی اور کچھ میڈیا حلقوں کے پاس ہے وہ اگر درست ہے ، تو سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیوں اس کمیٹی کی رپورٹ کو سرکاری لاشہ گھر کی نذر کردیاگیا، اگر رپورٹ زیر غور ہے تو پھر کیوں اس کی عمل آوری کی سمت میں دفتری گھِس گھِس اور تاخیری حربوں سے کام لیاجارہا ہے۔
خطے کے لوگ آئے روز کی ہلاکت خیز سڑک حادثوں کی مختلف وجوہات بیان کررہے ہیں، ان سارے وجوہات کو ایک مفصل رپورٹ کی شکل وصورت عطا کرکے ان پر غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان وجوہات کی روشنی میں مناسب اقدامات اُٹھائے جاسکیں۔ سوال حادثوں میں جاںبحق افردا کے لواحقین میں ایکس گریشیا ریلیف منظور کرکے اداکرنے اور زخمیوں کے علاج ومعالجہ کیلئے کچھ امدادی رقم ادا کرکے حادثات پر افسوس اور صدمہ کا اظہار کا نہیں ہے بلکہ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے سنجیدہ اقدامات اُٹھا کر ان دلخراش واقعات کی روک تھام کا ہے جن کا فی الوقت تک گہرا فقدان نظرآرہاہے۔ یہ فقدان لغزشوں ، کوتاہیوں اور بے اعتنائی سے عبارت انداز فکر اور طرزعمل کی روشنی میں پاٹا نہیں جاسکتا ہے بلکہ اس کیلئے عملی اقدامات اور ٹھوس اپروچ کی ضرورت ہے۔
صورتحال کی سنگینی کے ہوتے یہ مطالبہ بے جانہ ہوگا کہ خطہ کی باالخصوص ان سڑکوں کی دیکھ ریکھ اور کشادگی کے تعلق سے منصوبوں کو بی آر او کی تحویل میں دیاجانا چائے کیونکہ جموں وکشمیر کی وزارت آر اینڈ بی ، اس کی ماتحت اکائیاں اور جموں کی صوبائی انتظامیہ اب تک ۷۵؍ سال گذرنے اور تجربات کرنے کے باوجود ہر اعتبار سے صریح ناکام ہو چکی ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ یہ حادثات اور ان میں جاں بحق شہریوں کی ذمہ داری انہی اداروں کی مرہون منت تصور کی جاسکتی ہے۔
ان حادثات کو دیکھ ریکھ کراب ایک تاثر یہ بھی بنتا جارہا ہے کہ ذمہ دار اداروں سے وابستہ لوگ غالباً لذت پسند بن چکے ہیں اور شہریوں کی قیمتی زندگیوں کے اتلاف کے باوجود وہ شرمناک حد تک بے اعتنائی برت رہے ہیں۔یہ سڑکیں جنہیں اب عام لوگ موت کا کنواں بھی تصور کر رہے ہیں اور کتنے جانوں کو چھین لیتی رہیگی، کب تک ان دلخراش اور روح فرسا حادثات کو سہا جاتا رہے گا ،کیا اس وقت تک اور بھی انتظار اور بے اعتنائی کا موجودہ مشن اور عزم برقرار رہنے دیاجائے گا ، اگر واقعی انداز فکر اور اپروچ یہی ہے تو اس سے بڑھ کر المیہ اور خطے کے عوام کی بدقسمتی اور بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے۔
وزیراعظم نے اس مخصوص سڑک حادثے پرافسوس اور حادثہ میںجاں بحق شہریوں کے اتلاف پر گہرے صدمے کااظہار کرتے ہوئے لواحقین کے حق میں امداد کا اعلان کیا ہے، لیکن وزیراعظم ہی پہل کریں تو خطے کے عوام کوآئے روز کی ان قیامتوں اور دلخراش حادثات سے نجات دلانے کیلئے خطے کی سڑکوں کو بی آر او کی تحویل میں دینے کا حکم جاری کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اب عوام کی نگاہیں بھی اب انہی کی طرف مرتکز ہورہی ہیں، بلکہ عوام کو اُمید ہے کہ انہیں مایوس نہیں کیاجائیگا۔