تل ابیب//
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاھو نے کہا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی ہم غزہ میں ہی رہیں گے۔ گزشتہ روز انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ ان کا ملک غزہ کی پٹی پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ کسی بھی سکیورٹی ایمرجنسی کو روکنے کے قابل ایک عارضی فورس کی موجودگی کو یقینی بنانے پر غور کر رہا ہے۔ تاہم اب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک جنگ کے خاتمے کے بعد بھی غزہ میں ہی رہے گا۔
انہوں نے یہ بات جمعہ کو تل ابیب کے کیریا اڈے پر غزہ کی پٹی کے میئرز کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران کی۔ انہوں نے کہا "ہم اسے بیرونی طاقتوں کو نہیں دیں گے۔”
میئرز نے نیتن یاہو کو بتایا کہ انہوں نے جنگ کے اگلے دن ایک مختلف سکیورٹی حقیقت کا مطالبہ کیا۔ ان سے مطالبہ کیا کہ جنگ بندی پر رضامند نہ ہوں اور غزہ میں کام کو آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رکھیں۔ نیتن یاہو نے جواب میں کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی پر قابض رہے گی اور ہم اسے بیرونی قوتوں کو نہیں دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی سکیورٹی کنٹرول ہوگا۔ وہاں تخفیف اسلحہ کو مکمل کیا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ غزہ سے اسرائیلیوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
خیال رہے اگرچہ غزہ کی پٹی کا معاملہ اور جنگ کے بعد وہاں حکومت اور انتظامیہ کی نوعیت اب بھی غیر یقینی کا شکار ہے۔ تاہم ایک یورپی سفارت کار نے جنگ کے بعد غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے کے حوالے سے یورپی یونین کی فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہونے کی تصدیق کی ہے۔
سفارت کار نے ’’ العربیہ‘‘ کو بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی ہی یورپی یونین کے لیے غزہ کا انتظام کرنے کا واحد قانونی ادارہ ہے۔ غزہ میں تباہی کی سطح کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں عبوری انتظامیہ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
’’العربیہ‘‘ کو 31 اکتوبر کو حاصل ہونے والی ایک دستاویز سے انکشاف ہوا ہے کہ کئی یورپی ملکوں نے جنگ کے بعد غزہ کی انتظامیہ کو بین الاقوامی بنانے کے آپشن پر تبادلہ خیال کیا اور اقوام متحدہ کے تعاون سے اسے منظم کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی اتحاد کے قیام کی تجویز پیش کی۔
جرمنی کی طرف سے تیار کردہ اور متعدد یورپی ممالک میں تقسیم کی گئی دستاویز میں تجویز کیا گیا تھا کہ جنگ کے بعد غزہ کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری ایک بین الاقوامی اتحاد پر عائد کی جائے۔ یہ اتحاد سرنگوں کے نظام کو بھی ختم کر دے گا اور غزہ میں ہتھیاروں کی سمگل کو بھی روکے گا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاملے پر یورپی یونین کے ملکوں کی صفوں میں تقسیم موجود ہے۔
مزید برآں دستاویز میں اسرائیل کی فوجی ذرائع کی جانب سے حماس کو ختم کرنے کی صلاحیت پر بھی شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ دستاویز میں حماس کی مالی اور سیاسی حمایت کے ذرائع کو خشک کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس حوالے سے واشنگٹن نے بھی بارہا اشارہ دیا کہ کئی تجاویز زیر غور ہیں۔ مغربی ملکوں کی میز پر ساحلی فلسطینی پٹی کے مستقبل کے لیے بہت سے آپشن رکھے گئے ہیں۔ ان آپشنز میں امن فوج یا حتیٰ کہ عرب افواج کی موجودگی کا امکان بھی شامل ہے۔
مصری حکام نے گزشتہ دو دنوں کے دوران یہ انکشاف کیا تھا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کو ایک تجویز پیش کی تھی کہ مصر غزہ میں سکیورٹی کا انتظام کرے تاکہ فلسطینی اتھارٹی ذمہ داری سنبھال سکے لیکن السیسی نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔