مسلم اوقاف ٹرسٹ جس کا نام بدل کر وقف بورڈ رکھاگیا حالیہ ایام میں کچھ معاملات کے حوالہ سے خبر ونظر میں ہے۔ ان میں سے ایک معاملے کا تعلق ربیع الاول مہینہ کی مناسبت سے ۱۲؍ ربیع الاول (عید میلاد النبیﷺ )کے موقعہ پر آثار شریف حضرتبل میں زائرین کی سہولیات اور دیگر انتظامی امورات کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے ۱۱؍ربیع الاول کو ہی عام تعطیل اور آخری جمعہ کی تعطیل اس کے اگلے روز ۱۲؍بیع الاول کو کرنے کے اقدام اور اعلان سے ہے۔
سوال اعلان تعطیل کا نہیں بلکہ لوگوں کے مذہبی جذبات روحانی وابستگی اور مناسبت سے تقریبات میں شرکت کا ہے اور عام قاعدہ اور روایت یہی رہی ہے کہ حکومت کی جانب سے تعطیلات کا اعلان بھی تقریبات کے یوم انعقاد کی مناسبت سے کیاجاتا رہا ہے ۔ لیکن ایڈمنسٹریشن نے اب کی بار دستور، روایت اور یوم تقریب سے ہٹ کر بلکہ ایک روز قبل کیلئے ہی تعطیل کا اعلان کیا، جس کے لئے عوامی سطح پر شدید ردعمل کا اظہار سامنے آیا جبکہ عقیدت مندوں نے آثار شریف حضرتبل میں حاضری دے کر نمازیں اداکیں اور موئے مقدس کی زیارت سے فیضیاب ہوئے۔
ایڈمنسٹریشن نے اپنے اس حیرت انگیز اقدام کی کوئی وجہ بتائی اور نہ وضاحت کی البتہ وقف بورڈ انتظامیہ کی صلاحیت، اہلیت اور تاریخ میںتبدیلی کے حوالہ سے ’معاونتی کردار اداکرکے‘ خاموشی اختیار کرنے پر چبتے سوالات ضرور سامنے آتے رہے ۔ایڈمنسٹریشن نے تعطیلات کی تاریخیں کیوں تبدیل کیں اس بارے میں عوامی حلقے مختلف دلیلیں پیش کررہے ہیں جو غالباً بلکہ بادی النظرمیںقیاس آرائیوں سے ہی عبارت لگتی ہیں اور پھر وقف بورڈ کی جانب سے آثار شریف حضرت بل میں تعینات وقف ملازمین کی معطلی کو لے کر بھی وقف کے جواز کو چیلنج کیا جارہا ہے بلکہ تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اس حوالہ سے اپنی پارٹی کے سید الطاف بخاری نے آثار شریف حضرتبل میں جمعہ نماز کی ادائیگی کے حاشیہ پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے اور وقف بورڈ کو خاص طورسے نشانہ بنایا وہ توجہ طلب ضرور ہے۔ الطاف بخاری نے وقف بورڈ کی خود مختار حیثیت تبدیل کرنے کا ملبہ اپنی سابق جماعت پی ڈی پی پر یہ کہکر ڈالدیا کہ اس جماعت نے بحیثیت حکمران کے ۲۰۰۳ء میںوقف بورڈ کی خودمختاری ختم کرکے اس پر قبضہ کرلیا اور بقول ان کے تاکہ نیشنل کانفرنس کے ساتھ سیاسی سکور طے کیا جاسکے۔ بخاری نے دعویٰ کیا کہ یہ ادارہ اوپر سے نیچے تک سنگین نوعیت کی بد انتظامی کی حالت سے دو چار ہے اور اپنی بدانتظامی پر پردہ ڈالنے کیلئے ادنیٰ ملازمین کے خلاف کارروائی کی۔
بخاری کا اشارہ مرحوم مفتی محمدسعید کی قیادت میں مخلوط حکومت کی طرف ہے جس حکومت میں خودبخاری بھی ایک ذمہ دار عہدے پر فائز تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اقتدار پر براجماں ہونے کی مصلحتوں کے پیش نظر اُس وقت وقف بورڈ کی مبینہ خودمختار حیثیت ختم کرنے کے خلاف کسی نے زبان نہیں کھولی۔ وقف بورڈ کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کی ذمہ دار صرف پی ڈی پی ہی نہیں بلکہ ہر وہ اقتدار پرست جماعت ہے جو برسراقتدار رہی یا لائی جاتی رہی۔
نیشنل کانفرنس نے اپنے ہر دوراقتدار میں وقف بورڈ (مسلم اوقاف ٹرسٹ) کو اپنی ملکیت سمجھا اور اسی انداز اور ذہنیت کے ساتھ اس اہم ملی اور عوامی اہمیت کے حامل ادارے کو اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا۔ غلام نبی کوچک نیشنل کانفرنس کی بحیثیت سربراہ وقف ادارہ کی قیادت کرتے رہے جبکہ نظام الدین بٹ پی ڈی پی دور حکومت میںپی ڈی پی کی طرف سے بحیثیت ناظم کام کرتے رہے اور اب جبکہ بحیثیت یوٹی ایڈمنسٹریشن کی سربراہی لیفٹیننٹ گورنر کے ہاتھ میں ہے تو اس ایڈمنسٹریشن نے بھی اپنے نمائندہ کو وقف کی سربراہی کا تاج سرپررکھا۔
وقف کی شرعی حیثیت کیا ہے، وقف سے مراد کیا ہے، وقف کے تحت انتظامی امورات انجام دینے والے ہاتھوں کو کس حد تک اختیارات حاصل ہیں، وہ کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں، وقف املاک اور انتظامات کے بارے میں شریعت واضح ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اسی وقف کو وقت کے سیاسی حکمران اپنے سیاسی مقاصد اور عزائم کی تکمیل کیلئے ناجائز استعمال کرتے رہے۔ ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب کشمیرکے مفتی اعظم (مرحوم) بشیرالدین جو مسلم اوقاف ٹرسٹ بورڈ کے ایک رکن تھے نے اُس وقت بغاوت کا جھنڈا بلند کیا جب لفظ ’’مسلم ‘‘ کو ختم کرکے اسے وقف بورڈ کا نام دیاگیا، انہوںنے اعلان کیا تھا کہ وہ اس تبدیلی اور ہیت کے خاتمے کو قبول نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف عوامی سطح پر رائے عامہ منظم کرکے جدوجہد کریں گے۔ لیکن بعد میں انہیں کس نوعیت کی مصلحتیں پیش آئی کہ وہ اپنی بغاوت کا جھنڈا سرنگوں کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ بھی وقف بورڈ کے تعلق سے تاریخ کا ایک ورق ہے۔
جیسا کہ اس کے ٹائیٹل سے ہی ظاہر ہے وقف کو ئی سیاسی یا نیم سیاسی ادارہ یا جماعت نہیں، بلکہ یہ شریعت کے تابع ایک ایسا ادارہ ہے جو دُنیا کے ہر حصے اور خطے میںموجود ہے۔ سیاسی مصلحتوں اور سیاسی اغراض کی سمت میں اس کیلئے سربراہوں کی نامزدگی اور تعیناتی کا اختیار شریعت کی رئو سے حکومت کے حد اختیارات میں نہیں ہے البتہ ملکی سطح پر وقف کے نظم ونسق اور امورات کے حوالہ سے جس سسٹم کو وجودعطاکیاگیاہے اور جس سسٹم کو رائج کرکے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے اُس سسٹم کے تحت اب وقف کے بڑے عہدوں کیلئے سیاسی شخصیات کی تعیناتی ایک مستقل طریقہ بن چکا ہے۔
اس سب کے باجود یہ سوال واجبی ہے کہ جموں وکشمیر میں کیا وقف بورڈ کے منتظمین شریعت کی رئو سے معاملات کو ایڈریس کررہے ہیں، انتظامی اور نگرانی امورات کی انجام دہی کے دوران کس حد تک شریعتی حدود کا احترام کیاجارہاہے اور سب سے بڑھ کر وقف کو مختلف حوالوں سے جو آمدن حاصل ہورہی ہے کیا اُس آمدن کا مصرف شریعت کے مقررہ تقاضوں کے عین مطابق ہورہاہے۔اس بارے میں عوامی سطح پر کوئی جانکاری دستیاب نہیں اور نہ ہی اس تعلق سے کسی آڈٹ رپورٹ کو منظرعام پر لانے کی ضرورت سمجھی جارہی ہے۔
یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں کہ وقف کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ اور وسیلہ لوگوں کی نقد وجنس عطیات کی صورت میںہے۔ اس کے بعد آمدن کا دوسر بڑا ذریعہ اس کے میوہ اور زرعی باغات اور اراضی ہے، مستقل اثاثوں کی صورت میں رہائشی اور کمرشل عمارتیں ایک بڑی تعداد میں موجودہیں، سینکڑوں کی تعدادمیں کرایہ پردکانیں اور کمپلکس اُٹھائے رکھے گئے ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ جو لوگ بحیثیت کرایہ دار ہیں وہ ایک تو وقت پر کرایہ ادانہیں کرتے اور دوئم سالہاسال قبل جو کرایہ مقرر کیا گیا تھا اس میں کسی تبدیلی کی بات تک سننے اور قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، یہ ہٹ دھرمی غلط اور ناجائز ہے اور شریعت کا تقاضہ تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے ہٹ دھرم اور خود غرض کرایہ داروں کو دروازہ دکھایاجانا چاہئے۔
وقف بورڈ نے جموںوکشمیر میں تاریخوں کے تعین کے حوالہ سے ’’اپنی رویت ‘‘ تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ زائد از چھ ماہ گذرگئے، وقف بورڈ کی جانب سے اس اعلان کو ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ اگر چہ بہت سارے حلقوں نے اس اعلان کا یہ کہکر خیر مقدم کیا تھا کہ اپنا اپنا ہوتا اور پرایا پرایا لیکن معلوم نہیں کہ اب وقف کو کونسی مصلحتیں درپیش ہیں کہ اس نے قدم پیچھے ہٹالئے۔ مہینوں اور تاریخوں کے اصل تعین کے لئے اپنی رویت کا اہم کردار ہے، پھر اس کے تعین کیلئے جغرافیائی اور علاقائی ہیت کا حد سے زیادہ عمل دخل ہے، اسی کی مناسبت سے تاریخ کا تعین کیاجاتاہے نہ کہ گھروں کی چار دیواروں میں بیٹھے کسی مفتی کے من چاہے اعلانات ، جھوٹی یا اختراعی شہادت کی بُنیاد پر فیصلے پر تعین ہوسکتاہے۔