ایک اور کشمیری کا لہو سرزمین کشمیر میں جذب ہو گیا۔ جنوبی کشمیر میں ایک ۲۰ سالہ نوجوان مبینہ دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنا، صورہ انسٹی ٹیوٹ میں زندگی اور ممات کی کشمکش میں مبتلا ہوکر بالآخر زخموں کی تاب نہ لاکر داعی حق کو لبیک کہہ گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ نوجوان دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنا، اس کے آگے خاموشی! تعجب ہے کہ اس نوعیت کے واقعات پر کم و پیش ہر ایک سیاسی پارٹی، فورسز ایجنسیاں اور دیگر نو آموز مذمتی بیانات اجرا کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن حیرت ہے اس واقعہ پر سارے خاموش ہیں۔ کسی نے بھی نہیں کہا کہ حملہ آوروں کو کیفر و کردار تک پہنچایا جائے گا، کوئی ایک لواحقین کی ڈھارس بندھانے ان کے گھر نہیں گیا، کسی ادارے نے لوحقین کے حق میں ایکس گریشیا امداد کا اعلان نہیں کیا، نہ متعلقہ علاقے کا محاصرہ کیا گیا اور اگر ابتدائی کچھ منٹوں کیلئے محاصرہ کیا بھی گیا لیکن ہاتھ کیا لگا اور کیا نہیں اس بارے میں بھی خاموشی ہے۔
ماضی قریب میں جو کچھ افراد مقامی یا غیر مقامی دہشت گردوں کے حملوں میں مارے گئے ان واقعات کی تحقیقات کئی ماہ گذرنے کے باوجود ابھی بھی جارہی ہے ، مختلف تحقیقات ایجنسیاں چھاپے مار رہی ہیں، مشتبہ افراد کی پوچھ گچھ کا بھی سلسلہ جاری ہے لیکن جنوبی ضلع کے اس نوجوان کی ہلاکت پر پراسرار خاموشی ہے، اس مخصوص واقعہ پر اتنی خاموشی کیوں یہ باعث تعجب ہے۔
جو کوئی دہشت گرد اس واقعہ میں ملوث ہے، چاہے مقامی ہے یا کنٹرول لائن کے راستے دراندازی کرکے داخل کشمیر ہوا ہے یا اورکوئی نہ صرف اھل کشمیر اور کشمیری معاشرے کا دشمن اعظم ہے بلکہ کشمیر میں قیام امن اور استحکام کا بھی دشمن ہے ۔ یہ لوگ کس کے اور کن کے اشاروں اور ہدایات پر قتل و غارت میں سرگرم عمل ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، البتہ اگر ان حملہ آوروں کا خیال یا ان کے بقول ایمان یہ ہے کہ یہ انکا جہاد ہے تو وہ صریح گمراہی کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اس عمل کو فساد فی الارض ہی قرار دیا جاسکتا ہے ، اس کا تعلق کسی سیاسی یا نظریاتی تحریک سے بھی نہیں ہے ۔ البتہ عملانے والے اگر اپنے عزائم کی پردہ پوشی کی خاطر ایسے معاملات کو کسی سیاسی یا نظریاتی تحریک کا لبادہ پہنا رہے ہوں تو وہ دوسری بات ہے جس کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں ہینڈل کرنے والے انہیں گمراہ کرکے صرف اپنے مکروہ عزائم اور مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں ۔
چور دروازوں سے بھرتی
انتظامیہ کے سربراہ چیف سیکریٹری نے انکشاف کیا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے چور دروازوں سے اڑھائی لاکھ غیر مستحق افراد کو ملازمت فراہم کی ہے لیکن موجودہ یوٹی ایڈمنسٹریشن تعلیم یافتہ نوجوانوں کو باوقار ذریعہ معاش فراہم کرنے کے لئے پُر عزم ہے جبکہ غیر قانونی اور چور دروازوں سے ملازموں کی بندر بانٹ کو ختم کرنے کا پختہ عزم رکھتی ہے ۔
چیف سیکریٹری کا یہ اعلان قابل سراہنے ہے البتہ جن اڑھائی لاکھ افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے اس کے پیچھے وجوہات اور عوامل کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ عدم سیاسی استحکام اور اس حوالے سے جس سیاسی نظام کو گذرے برسوں کے دوران دہلی سے لے کر سرینگرتک(بلکہ براستہ جموں) پروان چڑھایا بھی گیا اور اس کی سرپرستی بھی کی جاتی رہی ۔ اس مخصوص منظر نامے میں گذرے برسوں کے دوران اتنی تعداد میں بیک ڈور سے ملازمین فراہم کرنا کسی حیرانی کا موجب نہیں ۔ چیف سیکریٹری کا دعویٰ غلط نہیں بلکہ زمینی حقائق پر مبنی ہے ۔
نہ صرف سیاستدان، حکومتی ذمہ دار، اعلیٰ عہدوں پر فائز بیروکریٹ اور بھرتی عمل سے وابستہ اداروں کے ذمہ دار بھی اس بیک ڈور بھرتی میں ملوث رہے ہیں ۔ ریاستی اسمبلی کے کچھ سپیکروں کو بھی ماضی قریب میں اس تعلق سے نامزد کیا جاتا رہاہے جہاں کشمیر سے سپیکر محمد اکبر لون کا نام لیا جاتا رہا وہیں جموں سے وابستہ سپیکر تارا چند کا بھی نام لیا جاتا رہا ۔ ان دونوں کے چور دروازوں سے بھرتی کے الزامات کی تحقیقات کرنے کا دعوے بھی ایک مرحلہ پر کیا گیالیکن پھر ان تحقیقاتی رپورٹوں کا کیا حشر ہوا عوامی سطح پر کوئی جانکاری نہیں۔اسی طرح پی ڈ ی پی، بی جے پی مخلوط حکومت کے دوران بی جے پی کوٹہ سے وابستگی رکھنے والے ایک وزیر نے کم سے کم تین سو بھرتیاں عمل میں لائی، جن بھرتیوں میں سے اپنا اپنا حصہ بہت سارے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد اور سرکردہ شخصیات نے بھی حاصل کیا، یہاں تک کہ براہ راست کچھ ایک کو سیکریٹریوں اور کمشنروں کے عہدوں پر تعینات کیا گیا، کیونکہ دوستی اور شراکت کا تقاضہ تھا۔
موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ گزشتہ ۳ سال کے دوران ۳۰ ہزار افراد کو ملازمتیں فراہم کی گئی ہیں لیکن یہ سچ بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اسی مدت کے دوران سروسز سلیکشن بورڈ کی جانب سے متعدد انٹرویویز اور سلیکشن لسٹوں کو دھاندلیوں اور فراڈ کے سنسنی خیز الزامات کے تناظر میں کالعدم قرار دیا جاتارہا۔ جو امیدوار سلیکشن پراسیس کا حصہ رہے ہیں وہ آئے روز سڑکوں پر آتے رہے اور سر نو انٹرویوز اور سلیکشن پروسیس ہاتھ میں لئے جانے کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے ۔ اس سلسلے میں کچھ ایجنسیوں سے وابستہ افراد کو حراست میں لے کر پوچھ تاچھ کی جاتی رہی لیکن حتمی سلیکشن پروسیس ابھی پائپ لائن میں بھی نہیں ہے۔
جموںوکشمیر میں بڑھتی بیروزگاری ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے ۔ کچھ اداروں کی طرف سے جاری ڈاٹا کا سہارا لئے بغیر بھی وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ یہاں یوٹی میں بیر وزگاری کا شرح تناسب قومی سطح پر شرح تناسب کے مقابلے میں حد سے زیادہ ہے ۔ اگر گذرے ۳ برسوں کے دوران ۳۰ ہزار کو روزگار فراہم کیا گیا تو قدرے اتنی ہی تعداد میں ملازمین اپنی سروس مکمل ہونے پر ریٹائر بھی ہوتے رہے ۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مختلف سرکاری محکموںمیں خالی پڑی اسامیوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے ۔
ان خالی جگہوں کو پُر کرنے کیلئے بھرتی عمل میں تیزی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ بے روزگاری کے دیو نے یوٹی کے دونوں خطوں کشمیر اور جموں میں سنگین مضمرات کے حامل معاشرتی مسائل اور الجھنوں کو پیدا کیا ہے ۔یہ صورتحال حال اور مستقبل دونوں کے حوالوں سے خطرناک نتائج کی حامل ہے بلکہ اپنے اندر ایٹم بم سے کہیں زیادہ خطرناک مضمرات سے عبارت ہے ۔ البتہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں بہ حیثیت مجموعی اس کا ادراک نہیں ہورہا ہے۔ ہم اس منظر نامے کو روزمرہ کا معمول قرار دے کر نظر انداز کررہے ہیں ۔
۹۰ ء دہائی میں جب کشمیر میں عسکری تحریک شروع ہوئی تو حکومتی اور معاشرتی سطح پر روزگار کی کمی اور جوانوں کی صفوں میں بے روزگاری قرار دیا جاتا رہا۔ کوئی نہیں چاہے گا کہ ۹۰ کا منظر نامہ واپس آجائے اور جموں وکشمیر کا امن استحکام اور ترقیاتی عمل غارت ہو جائے، لہٰذا یہ موجودہ سیٹ اپ کی اخلاقی، سماجی اور انتظامی ذمہ داری ہے کہ وہ یوٹی کے لاکھوں بے روزگار تعلیم یافتہ افراد کی انتظامیہ کے مختلف شعبوں میں عرصہ سے خالی پڑی جگہوں کو پُر کرنے کی سمت میں ٹھوس اقدامات کی پہل کرے۔