لیڈر شپ شکستوں کے باوجود عبرت حاصل نہیں کررہی ہے
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شکست غیر متوقع نہیں البتہ انتخابات سے قبل یہ توقع ضرور تھی کہ پارٹی حکمران جماعتوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور اُٹھائیگی۔ لیکن یہ توقع بھی خام خیالی ہی ثابت ہوئی۔ وجہ کیا ہے؟
کئی وجوہات ہیں۔ کانگریس کا مقابلہ بی جے پی یا اس کی اتحادی پارٹیوں سے نہیں، بلکہ اس کا مقابلہ اپنے آپ سے ہے۔ یہ معاملہ کانگریس بہ مقابلہ کانگریس کا ہے۔ کانگریس بہ مقابلہ کانگریس اب کئی سالوں سے ہے جس پر قابو پانا ہر گذرتے لمحے کے ساتھ ناممکن بنتا جارہاہے ۔ راجستھان، پنجاب، اتراکھنڈ ، جموںوکشمیر، گجرات، کہاں کانگریس اندرونی انتشار اور آپسی محاذ آرائی سے نہیں جھوج رہی ہے۔ لیکن لیڈر شپ ہے کہ نہ اپنی خو بدلنے کیلئے تیار ہے اور نہ وضع!
ملکی عوام سے کانگریس کا یہ ناک نقشہ پوشیدہ نہیں۔ سینئر ترین لیڈروں کو حاشیہ پر دھکیلا گیا ہے، کانگریس کے اندر ایک مخصوص چاپلوس اور شخص پرستی میںاندھی ٹولی لیڈر شپ کے اس سینئر گروپ کی کردارکشی بھی کررہاہے اور انہیں حاشیہ پر دھکیلنے کا ہر حربہ بروئے کار لارہاہے۔
پنجاب میں توقع تھی کہ پارٹی واپس اقتدار حاصل کرے گی۔ لیکن یہاں بھی پارٹی شکست سے دوچار ہوئی۔ پنجاب میں پارٹی کی نیا ڈبونے کے ذمہ دار دو بڑے لیڈر ہیں۔ نوجوت سنگھ سدھو اور سابق وزیراعلیٰ کپٹن امریندر سنگھ، دونوں کو انتخابات میں شرمناک شکست ہوئی۔ پھر کچھ سینئر لیڈروںنے بھی کنارہ کشی اختیار کی اور انتخابی دنگل کے دوران کچھ ایسے بیانات دیئے جنہیں پارٹی کی شکست میں اہم کردار کا حامل خیال کیاجارہاہے۔
بہرحال شکست کیلئے بھی کچھ اسباب اور عوامل ہوتے ہیں اور کامیابی کیلئے بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ میں دکھانے کیلئے ضروری ہے۔ کانگریس کی بچی کچھی قیادت اتنی قد آور نہیں کہ وہ عوام پر اپنے اثرورسوخ کو ثبت کرسکے۔ اس کے برعکس پارٹی کی لیڈر شپ ۷۰؍ سال گذرنے کے باوجود پارٹی کے ماضی اور ماضی کی لیڈر شپ کے چرنوں میں سجدہ ریز نظرآرہی ہے۔ نہرو… اندرا کے نام پر پارٹی اب اپنا مستقبل نہیں بناسکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ رائے دہندگان کی ایک نئی فصل نے میدان سنبھال لیا ہے۔ یہ نئی فصل ماضی میں نہیں آج کی تاریخ میں کچھ حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ نہرو … اندرا نے جو کچھ کیا وہ ماضی ہے اور جو کچھ انہوںنے بحیثیت حکومتی قیادت کے ملک کے لئے کیا وہ بھی ماضی کا ایک ورق ہے۔
رفتار زمانہ اپنی ترجیحات کے حوالہ سے ہر ۲۴؍ گھنٹے میںاپنی ہیت اور رفتار تبدیل کرتا جارہاہے۔ اگر چہ سڑک ، پانی ، مکان اور روٹی کا مسئلہ اُس ماضی میں بھی اہم تھا لیکن ان اشوز کی آج کی تاریخ میں اپنی اہمیت کے باوجود اب ثانوی ہے۔ دُنیا سمٹ رہی ہے اور تقاضے بھی سمٹ رہے ہیں، ضروریات بھی اور ترجیحات بھی۔ لیکن کانگریس کی فی الوقت کی لیڈر شپ نہ جانے آج کی تاریخ میں کس دُنیا میں جی رہی ہے۔ یہ نہ اپنے اختراعی خول سے باہر آنے کیلئے پرتولنے کی کوشش کررہی ہے اور نہ اپنی ترجیحات اور اہداف کا سرنو تعین کرپارہی ہے۔ بس لکیر کا فقیر بنی ہے۔
کانگریس لیڈر شپ باالخصوص راہل گاندھی اور پرینگا گاندھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ عوامی جلسوں سے خطاب کے دوران وزیراعظم کی ذات کو راست نشانہ بناکر وزیراعظم پر جھوٹ بولنے کے الزامات عائد کر، یا حکومتی خریداریوں جن کا تعلق ملک کی سکیورٹی اور سلامتی معاملات سے براہ راست ہے کو تنقید کا نشانہ بناکر عوام کی توجہ اور ہمدردیاں حاصل کرکے اقتدارمیں واپسی کا راستہ استوار کرسکتی ہے۔ یہ محض ایک غلط یا خوش فہمی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ گاندھی پر یوار اس راستے اور طریقہ کار کا انتخاب کرکے اپنے ہی راستوں کو مسدود کرتاجارہاہے۔ عوام ان چونچلوں یا الزامات کے گرووغبار میں آکر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں۔
کانگریس لیڈر شپ کی دوسری بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اپنا شکست پر شکست خوردہ ہاتھ ملانے کیلئے تیار نہیں ۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کی اس حوالہ سے پہل کو بھی اس پارٹی نے کسی احترام کا حامل نہیں سمجھا۔ یہ اس کے تکبر اور غرور کا ایک ایسا پہلو ہے جو اس کی شکست کو ہر گذرتے روز کے ساتھ مستحکم کرتا جارہاہے۔
کانگریس کے برعکس وزیراعظم نریندرمودی نہ صرف اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کیلئے ہر وہ قدم اُٹھارہے ہیں جو وہ ضروری سمجھتے ہیں بلکہ اپنے چھوٹے بڑے اتحادیوں کو اعتماد میں لے کرانہیں اپنے شانہ بشانہ اور قدم سے قدم ملا کر سیاسی اور حکومتی سفر طے کرتے جارہے ہیں۔اپنے پیچھے ایسی لکیر چھوڑتے جارہے ہیں جو زمین پر ہی نہیں بلکہ عوام کے تحت الشعور پر بھی منعکس ہوتاجارہاہے۔
ان چند ریاستوں کے انتخابی نتائج نے یہ بات بھی ایک بار پھر واضح کردی ہے کہ فی الحال وزیراعظم نریندرمودی ملک کے واحد قدآور لیڈر ہیں جن کی قدآوری اور لیڈر شپ کا کوئی ہم عصر نہیں اور نہ دعویٰ کرسکتاہے ان نتائج کے ردعمل میں اگر تجزیہ کار یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وزیراعظم نے آئندہ۲۰۲۴ء کے الیکشن نتائج اپنے حق میں کرنے کی داغ بیل ڈالدی ہے تو کچھ غلط بھی نہیں۔ یہ نوشتہ دیوار ہے ، جو پڑھ سکنے کا اہل ہے وہی پڑھ سکتا ہے اور جو نہیں ہوگا وہ کورا ہی رہے گا۔
نچوڑ یہ ہے کہ ان نتائج نے کانگریس کی نیا مکمل طور سے ڈبودی ہے اب ۲۴ء کا انتظار ہے جب اس کا جنازہ برآمد ہوگا۔