کشمیر مہنگائی کی چکی میں پسا، کچلا اور دبا جارہا ہے۔گزشتہ دو برسوں کے دوران بازار میں جو کچھ سودا سلف کے حوالہ سے دستیاب ہے ان کی قیمتوں میں زائد از سو گنا اضافہ ہواہے یہاں تک کہ مقامی (کشمیری) چاول کی قیمت میںگذشتہ دو ماہ کے دوران سو فیصد اضافہ ریکارڈ کیاگیا۔ ۲، ۳ ؍ماہ قبل مقامی چاول ۲۵؍ سو اور ۳؍ہزار روپے فی کوئنٹل کے حساب سے دستیاب تھے جواب ۵۵؍سو روپے فی کوئنٹل کے حساب سے فروخت کیاجارہاہے ۔ یہی حال اوسط ساگ سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ ساتھ مصالحہ جات اور دیگر اشیاء کی بڑھتی قیمتوں کے حوالوں سے ہے۔
گراں فروشی کا یہ منظرنامہ اوسط شہری کے لئے ایک ایسا بوجھ ہے جواس کی اپنی طاقت اور قوت برداشت سے باہر ہے۔ لوگ ایک مشکل ترین اقتصادی کساد بازاری کے دور سے گذررہے ہیں او راپنی پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے بہت کچھ برداشت کررہے ہیں۔ کشمیرکے بازاروں کا یہ منظرنامہ اپنی جگہ لیکن کنٹرول لائن کے اُس پار پاکستان میں ہر کس وناکس مہنگائی کے حوالہ سے سینہ کوبی اور وائویلا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کا یہ وائویلا اور سینہ کوبی کس حد تک واجبی اور معقول ہے اس بارے میں مختصر طور سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا یہ وائویلا اس تعلق سے فطرتی اور واجبی ہے کہ پاکستان کا نہ صرف اشرافیہ بلکہ اوسط شہری ’مفت خوری‘ کی زندگی بسر کرتا آرہاہے، اشرافیہ کا حال یہ ہے کہ وہ لاکھوں اور کروڑوں کی ماہانہ آمدنی کے باوجود ٹیکس ادا نہیںکرتے بلکہ اگر کوئی حاکم ٹیکس کی ادائیگی کیلئے نوٹس اجرا بھی کرتا ہے تو قانون ساز اداروں سے وابستہ ارکان ، سیاسی ورکر ، لیڈران، جرگوں سے وابستہ لوگ، ہتھیار بند ٹولیاں حکام کو دھمکیاں دے کر اپنا راستہ ناپ لیتے ہیں۔
یہ ایک پہلو ہے ۔ دوسرا دلچسپ اورقابل توجہ پہلو گذشتہ روز اس وقت دیکھنے اور پڑھنے کو ملا جب پاکستان کے ایک سرکردہ اُردو روزنامے ’جنگ‘ میں شائع محمدعرفان صدیقی کاایک تفصیلی مضمون پڑھنے کو ملا جس میں ہمارے کشمیر میں قیمتوں کا موازنہ پاکستان میں رائج قیمتوں کے ساتھ کیا گیا۔ صدیقی لکھتے ہیں:
’’ایک ٹی وی چینل پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے انٹرویوز دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک کشمیری پاکستان کی معاشی صورتحال کے حوالہ سے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ وہ … بھارت کے قبضے میں رہنے کے باوجود اپنے بچوں کیلئے چالیس روپے لیٹر دودھ خریدتا ہے، پاکستان میں دودھ دو سو روپے ملتا ہے۔ وہ آٹے کا دس کلو کاتھیلا چار سو روپے میں خریدتا ہے جبکہ پاکستان میںساڑھے ۱۲؍ سو روپے ملتا ہے۔ وہ پیٹرول سو روپے لیٹر خریدتا ہے جبکہ پاکستان میں تین سو روپے سے بھی مہنگا ہے…کشمیری شہری پاکستان کے حوالہ سے اپنی تشویش کا اظہار کررہا تھا کہ وہ بھارت میں رہ کر بھی وہ اپنے بچوں کا مشکل سے پیٹ پال رہا ہے، پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں ہمارے لئے زندہ رہنا ہی مشکل ہوجائے گا…ـ‘‘
جنگ کے کالم نگار کا قیمتوں کے حوالہ سے موازنہ غور طلب بھی ہے اور توجہ طلب بھی لیکن مضمون نگار نے قیمتوں کا موازنہ کرتے وقت بددیانتی سے کام لیا ہے اور اس زمینی حقیقت کو چھپالیا ہے کہ پاکستان کی کرنسی کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں کیا ہے اور ہندوستانی کرنسی کی قدر اسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں کیا ہے۔ موازنہ کرتے وقت اس بُنیاد کو نہ صرف ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے تھا جبکہ پاکستان کے اُس سیاسی اور حکومتی نظام کو بھی مد نظر رکھنا ضروری بنتا ہے جس سیاست اور حکومتی نظام کو گذرے ۷۵؍ برس کے دوران پروان چڑھایا جاتارہاہے۔
مثال کے طور پر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ابھی چند روز قبل ملازمت کے بعد سبکدوش ہوا۔ پنشن کے طور پر وہ ماہانہ دس لاکھ روپے جیب میں رکھنے کا اہل قرار دیاگیا ہے ۔ اس کے علاوہ گاڑی کیلئے مفت پیٹرول، دو ہزار یونٹ مفت ماہانہ بجلی، ماہانہ مفت رسوئی گیس کی سہولیت، ایک سکیورٹی گارڈ کی خدمت بشمول اس کی تنخواہ اور مراعات ، ٹیکس کی مکمل چھوٹ ، کلرکل اسسٹنس او رمفت سرکاری رہائش۔ ان سے ہی مشابہہ مراعات آرمی کے جرنیلوں اور بریگیڈوں کیلئے بھی وقف ہے اور انہیں بھی ٹیکس کی ادائیگی سے استثنیٰ حاصل ہے ۔
اشرافیہ کیلئے اس نوعیت کی مراعات کا خمیازہ پاکستان کے اوسط شہری کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لوگوں کے پاس لاکھوں، کروڑوں مالیت کے ڈالر موجود ہیں لیکن خود سرکاری خزانہ ڈالروں سے خالی ہے جبکہ خزانہ میںکچھ ڈالر رکھنے کیلئے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے ہر ۲،۳ ماہ بعد ڈالروں کی صورت میں امداد کیلئے رجوع کرنا پڑرہاہے۔
بہرحال جہاں تک کشمیر اور پاکستان میں قیمتوں کے حوالہ سے موازنہ کا تعلق ہے تو اس بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندوستانی کرنسی کی ایک روپے کی قدر پاکستانی کرنسی کی تین روپے ۱۵ پیسہ کے قریب ہے۔ اس اعتبار سے موازنہ کیا جائے تو کشمیرکی مہنگائی پاکستان کی مہنگائی سے کہیں زیادہ ہے۔ مثلاً پیٹرول یہاں اگر سو روپیہ لیٹر دستیا ب ہے تو پاکستان میں تین سو روپے میں فروخت ہورہاہے۔ ڈالر یہاں ۸۳؍ روپے کے قریب ہے اس حساب سے دیکھاجائے تو پیٹرول ایک لیٹر تقریباً سوا ڈالر کے برابر دستیاب ہے۔ پاکستان میںڈالر کی قدر ۳؍ سوروپے ہے جبکہ پیٹرول پاکستان میں تین سو روپے فی لیٹر دستیاب ہے۔فرق واضح ہے ۔ کشمیر ایک چوتھائی ڈالر کے برابر رقم فی پیٹرول لیٹر زیادہ اداکررہاہے۔اسی طرح موازنہ جب دودھ، آٹا اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے تو یہی فرق واضح طور سے سامنے آجاتی ہے۔ لیکن پاکستانی عوام کو یہ سچ نہیں بتایا جارہا ہے سارے سیاستدان ، ان کی پارٹیاں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پاکستان بھرمیں قیمتوں کے حوالہ سے ایک بھونچال کو پیدا کرتے جارہے ہیں اور لو گ بھی سڑکوں پر آکر نہ صرف وائویلا اور سینہ کوبی کرتے نظرآرہے ہیں بلکہ یہ دہائی بھی دے رہے ہیں کہ ان پر مہنگائی کا دیو مسلط کردیاگیا ہے۔
قیمتوں میںاُتار چڑھائو بیرونی منڈیوں میںرائج قیمتوں سے براہ راست منسلک رہاہے اورآگے بھی رہے گا ، البتہ یہ بات درست ہے کہ قیمتوں کے اُتار چڑھائو میںدخل اندازی ہوتی رہی ہے، اس دخل اندازی کے پیچھے منافع خور، سٹاکسٹ ،کمپنیاں ،مافیاز ،سمگلر اور دوسرے عنصروں کا ہاتھ ہوتا ہے ،نہ کشمیر مستثنیٰ ہے اور نہ پاکستان اور نہ ہی دُنیا کی کوئی معیشت، البتہ یہ ضرور ہے کہ اوسط شہری عموماً شاکی رہتے ہیں اور قیمتوں میں اضافہ کے کارن اور وجوہات کی گہرائی میں جائے بغیر سراپا احتجاج نظرآتے ہیں۔ دُنیا میں بہت کم ممالک ایسے ہیں جو بازار پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں اور قیمتوں میں عموماً اضافہ کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔بازاروں میںدستیاب مختلف نوعیت کی اشیاء کے حوالہ سے کوالٹی کنٹرول پر سختی سے عملی جامہ پہنا رہے ہیں اور اس حوالہ سے کوئی بھی تساہل اور لغزش کو ناقابل معافی جرم تصور کیاجارہاہے۔ لیکن جنوبی اشیاء کے اس مخصوص خطے کے ممالک میں اس نوعیت کا کوئی کنٹرول ہے اور نہ ہی تصور، بلکہ جواب دہی اور محاسبہ کو بھی معیوب اور کسر شان سمجھا جارہا ہے۔