پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے بعد اب عالمی سطح پر سوشل میڈیا ڈنکا بجارہا ہے ۔ سوشل میڈیا کا بڑھتا استعمال اب کم وبیش ہر گھر کی دہلیز عبور کرتا جارہاہے۔ اس میڈیا نے دُنیا کو سمٹ کر رکھدیا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے وسیع وعریض دُنیا نہیں بلکہ ایک چھوٹا ساگائوں ہے۔ سوشل میڈیا لوگوں کو جہاں ایک دوسرے کے قریب لانے میںاہم کرداراداکررہاہے وہیں خیالات کو مختلف اندازمیں زبان دینے کا چلن روزمرہ کا معمول بن چکاہے۔
سوشل میڈیا کے استعمال کے کچھ فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں۔ دُکھ سکھ میں شرکت اطلاعات اور جانکاری کی تیز رفتار ترسیل، رشتوں کے درمیان، چاہے ان کے درمیان مسافت کتنی ہی کیوں نہ ہو، رابطہ کچھ ایسے معاملات ہیں جن کا اب غالباً کوئی متبادل نہیں لیکن اس کا دوسر اپہلو بھی ہے جو زندگیوں اور معاشرتی آداب واخلاقیات کے حوالہ سے تہہ وبالا کرتا جارہاہے جبکہ اس کا مختلف عقائد اور نظریات کے حوالہ سے غلط اور منفی استعمال صحت، سلامتی اور بقاء کے لئے شدید خطرہ بنتا جارہاہے۔
سوشل میڈیا کا غلط اور ناجائز استعمال روکنے کیلئے مختلف ممالک اپنے مخصوص اختیارات اور وسائل کا استعمال تو کررہے ہیں جبکہ متعلقہ ادارے جو ملکیتی حقوق اور اختیارات رکھتے ہیں ملکوں کی طرف سے مخصوص درخواست کے جواب میں ایسے اکائونٹس کو بند تو کردیتے ہیں لیکن جو سیلاب آچکا ہے اس کے آگے باندھ باندھنے کی کوشش اب بے نتیجہ اور بے وقعت ثابت ہوتی جارہی ہیں کیونکہ لوگ نئے نئے ناموں کے ساتھ اپنے لئے نئے اکائونٹس کھولنے میں اب ذہنی طور سے کافی بلکہ پیشہ ورانہ مہارت رکھتے ہیں۔
کشمیر کی ہمسائیگی میںنگاہ ڈالی جائے تو سوشل میڈیا کے غلط، ناجائز اور منفی استعمال کے حوالہ سے منظرنامہ واضح طور سے دکھائی دے رہاہے ۔ا س تعلق سے پاکستان کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جہاں مخصوص سیاسی عقائد اور نظریات کی بُنیاد پر سوشل میڈیا کو سٹیٹ کے نظریات، اس کی آرمی ، اس کی عدلیہ اور دوسرے سیاسی ونیم سیاسی اداروں کے خلاف استعمال کیاجارہاہے۔ کوئی بھی سٹیٹ چاہئے جمہوری طرز نظام کی پیداوار ہو، آئین کی پاسدار ہو یا نہ ہو یا کسی ہائی برڈ نظام کے تحت ملک کا نظم ونسق چلایا جارہا ہو کے ذمہ داریں اس سوشل میڈیا کی کسی بھی طرح کی لن ترانیوں باالخصوص جس اطلاعات یا نریٹو کی بُنیاد محض نظریاتی عقائد اور پروپیگنڈہ پر ہو کو برداشت نہیں کرسکتے۔
اسی طرح امریکہ میں سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے کچھ حامی بھی سوشل میڈیا کی وساطت سے ٹرمپ کے عقائد اور مخصوص نظریات کو بُنیاد اور جواز بنا کر ایک مخصوص نسلی فرقہ اور طبقہ کے خلاف منافرت آمیز مہم چلا رہے ہیں جن کی نشاندہی پر ان کے خلاف تادیبی کارروائی کا عمل جاری ہے۔ خود ہمارے ملک ہندوستان میںکچھ مخصوص ذہنیت اور فکر کے حامل افراد سوشل میڈیا کے ذریعے منافرت آمیز مہم چلارہے ہیں۔ نسلی، لسانی ،مذہبی اور کچھ دوسرے عقیدوں کی بُنیادوں پر مختلف طبقوں کے خلاف نفرت آمیز مہم چلا کر تشدد کی تحریک دی جارہی ہے۔ ملک کے اس مخصوص منظرنامے کو دیکھتے اور اس کے ممکنہ سنگین نتائج کو محسوس کرتے ہوئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ نے اپنی ناپسندیدگی کا برملا اظہار کرتے ہوئے قانون کے ذمہ دار اداروں کو ہدایت دی کہ وہ اس منافرت آمیز منظرنامہ کا سنجیدہ نوٹس لے کر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔ غرض دُنیا کا وہ کوئی علاقہ یا خطہ ایسا نہیں جہاں سوشل میڈیا کو ناجائز اور غلط مقاصد کیلئے ستعمال نہ کیاجارہا ہو۔
یہ اب عالمی سطح پر وباء کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ہمار ا کشمیر مستثنیٰ نہیں۔اگرچہ مختلف اقدامات اور تادیبی کارروائیوں کے چلتے کشمیرمیں سوشل میڈیا کاغلط اور منفی استعمال پر کافی حد تک قابو پایا جاچکا ہے لیکن ابھی کچھ مخصوص فکر کے حامل اس کا غلط اور ناجائز استعمال کررہے ہیں۔ بے شک آئین اور قانون باالخصوص جمہوری تقاضے تحریر وتقریر اور اظہاررائے کی آزادی کی ضمانت دے رہا ہے اور اس ضمانت کو عدلیہ کی گارنٹی بھی حاصل ہے لیکن اسی آزادی کو جب غلط مکروہ اور مذموم عزائم کی تکمیل ، منافرت کی ترویج اور غلط نظریات کے حصول کیلئے لائنس سمجھ کر استعمال کیا جائے تواس مخصوص آزادی کا عنوان بھی تبدیل ہوجاتا ہے اور تمہید بھی بدل جاتی ہے ۔
کوئی بھی ملک اپنے خلاف، اپنی علاقائی وحدت، سالمیت، یکجہتی اور لوگوں کی آپسی رواداری کے خلاف کسی بھی طرز اور طرح کی دشنام طرازی برداشت نہیں کرسکتا خاص کر اُس وقت جب سوشل میڈیا کو سکیورٹی فورسز کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہو۔ اس تعلق سے ابھی چند گھنٹے قبل پولیس نے ایک ایسے ہی شہری کو حراست میں لے لیا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے اپنے سوشل نیٹ ورک کا ناجائز اور غلط استعمال کرکے ککرناگ انکائونٹر کے حوالہ سے مخصوص منافرت آمیز اور پروپیگنڈہ مہم چلائی تھی۔ اس شخص جس کی عمر ۲۲؍ سال بتائی گئی کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ سوشل میڈیا پرعموماً منافرت آمیز پوسٹ کرنے کا عادی ہے اور وہ راڈار پررہا ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے اور بھی ایسی ہی مخصوص فکر کے کچھ لوگ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں جن کے خلاف تادیبی کارروائی کی جارہی ہے۔
ہم سوشل میڈیا کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں ہیں لیکن ہماری خواہش یہ ہے کہ اس طاقتور میڈیا کو ان معاشرتی ، تعلیمی، صحت عامہ، تعمیر وترقی، بدعات اور سماجی رسومات، منشیات کا استعمال اور استعمال کی صورت میں صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات وغیرہ اشوز پر سماجی بیداری کیلئے بروئے کار لایا جائے، کیا بحث کرنے کیلئے صرف ’’گن ‘‘کلچر ہی ہے اور کشمیر کے معاشرے کو اور کوئی مسئلہ اور تکلیف کا سامنا نہیں، کیونکہ سوشل میڈیا کے ہینڈلرز کشمیری معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹنے والے اور اندر ہی اندر سے کھوکھلا بنانے والے معاملا ت کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں ۔ ذمہ دارانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سماجی بیداری کی سمت میں انہی سوشل میڈیا کے مختلف ٹولز کو بروئے کار لاکر ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا جاسکتا ہے۔