محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ ملکی سطح کے اپوزیشن اتحاد…انڈیا کا حصہ ہونے کے ناطے اس کی ۱۴؍رکنی کارڈنیشن کمیٹی کے رکن ہیں جس کا اجلاس ابھی چند روز قبل منعقد ہوا۔ کارڈی نیشن کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کے وسیع تر تناظرمیں ان انتخابی حلقوں کی نشاندہی کریں جہاں سے متحدہ اپوزیشن اُمیدوار حکمران جماعت کا مقابلہ کرے۔ اس تجویز کا اہم اور سب سے بڑھ کر مدعا یہ ہے کہ حکمران جماعت کے مقابلے میں اپوزیشن اتحاد کے اُمیدواروں کی کامیابی جہاں یقینی بنائی جاسکے وہیں حکمران جماعت کو اقتدار سے بے دخل کیاجاسکے۔
اس مخصوص تناظرمیں عمرعبداللہ نے کمیٹی میں یہ تجویز رکھی ہے کہ اپوزیشن اتحاد کی جماعتوں سے وابستہ جو اراکین فی الوقت رکن پارلیمنٹ ہیں ان حلقوں کو نہ چھیڑا جائے بلکہ ان حلقوں کو انہی کیلئے وقف کیاجائے۔ اپوزیشن اتحاد کے ممبران کیلئے ان حلقوں کی نشاندہی کی جائے جن حلقوں سے گذشتہ الیکشن میں حکمران جماعت کے ارکان کامیاب ہوئے ہیں۔
جموں وکشمیر کے تناظرمیں عمرعبداللہ کی اس تجویز کو معنی خیز تصور کیاجارہا ہے۔ کشمیر کے تین پارلیمانی حلقے فی الوقت نیشنل کانفرنس کے پاس ہیں ، جبکہ جموں کے ۲؍ اور لداخ سے ایک حلقہ بی جے پی کے پاس ہے۔ عمرعبداللہ کی اس تجویز کو اگر عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو اُس کا براہ راست نقصان بادی النظرمیں محبوبہ مفتی کی قیادت میں پی ڈی پی کو ہوسکتا ہے۔کیونکہ اس صورت میں پی ڈی پی وادی کے کسی بھی حلقے سے اپنا کوئی اُمیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔ البتہ کانگریس کے لئے جموں کے دو حلقے وقف کئے جاسکتے ہیں ۔لداخ کی بات بعدمیں ۔
پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کمیٹی کے اندر عمرعبداللہ کی اس تجویز پر فوری طور سے کوئی ردعمل تو ظاہر نہیں کیا ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ پی ڈی پی عمر کی اس تجویز کو غالباً قبول نہیں کرے گی اور وہ وادی سے اگر کچھ نہیں تو کم سے کم ایک حلقے کیلئے اپنا دعویٰ کرسکتی ہے۔ پارلیمانی حلقہ اننت ناگ سے پہلے بھی اس پارٹی کا اُمیدوار رکن پارلیمنٹ بن چکا ہے۔ لہٰذا اس حلقے کے حوالہ سے اس کی دعویدار ی کسی حد تک مضبوط ہے البتہ قطعیت کے ساتھ کہا نہیں جاسکتا کہ نیشنل کانفرنس اس ایک حلقے سے دستبرداری دینے کیلئے آمادہ ہوگی کہ نہیں۔ آمادگی کی صورت میں پارٹی کو اس کے کچھ نہ کچھ ممکنہ اثرات اور نتائج آنے والے اسمبلی الیکشن میں بھگتنا پڑیں گے۔ سابق اسمبلی میں جنوبی کشمیرکے کئی اسمبلی حلقوں سے پی ڈی پی کے اُمیدوار کامیاب رہے ہیں۔ اس حساب وکتاب کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا لہٰذا کوئی بھی پارٹی آسانی سے اپنے اثر ورسوخ والے حلقوں سے دستبرداری دینے پر آمادہ نہیں ہوگی۔
اس صورت میں سوال یہ ہے کہ گپکار الائنس نامی اتحاد پر اس کے کس نوعیت کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ،کیا یہ اتحاد اُس صورت میں برقرار رہ پائے گا یا ساری پارٹیاںآپسی شراکت داری کے جذبہ کے تحت ایک دوسرے کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اتحاد برائے اتحاد کے احترام میں آگے بڑھتی رہینگی؟
یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں اگست ۲۰۱۹ء سے آپسی اتحاد میں شامل ہیں اور مختلف حساس سیاسی نوعیت کے معاملات پر مشترکہ طور سے کام کررہی ہیں۔ کشمیرنشین اور کوئی پارٹی ماسوائے سی پی ایم کے اس اتحاد کا حصہ نہیں جبکہ اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس کسی اتحاد کا حصہ نہیں اور نہ ہی وہ چند پارٹیاں جنہیں گذشتہ چار سال کے دوران وجود توبخشا جاتا رہا لیکن اب تک وہ سب کی سب محض کاغذی یا دونفری ہی ثابت ہوئی۔
آنے والے اسمبلی انتخابات کے وسیع تر تناظرمیں دونوں پارٹیوں کے سامنے یہ اہم سوال درپیش ہوسکتا ہے کہ اگر وہ آپسی گٹھ بندھن …گپکار الائنس… سے علیحدہ ہوجاتی ہیں تو الائنس سے باہر جو پارٹیاں ہیںوہ اس کا کچھ نہ کچھ فائدہ اُٹھائینگی ، لہٰذا الائنس کے وسیع ترتناظرمیںدونوںکیلئے یہ اہم ہے کہ وہ آپسی اتحاد میں بنیں رہیں کیونکہ ملکی سطح کے اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہونے کے ناطے وہ جموں وکشمیر کے تعلق سے بھی وعدہ اور عہد بند ہونگی ۔ باالفرض اگر وہ جموں وکشمیر میں آپسی اتحاد میں شامل نہیں رہینگی تو انڈیا نامی اتحاد کا حصہ بنے رہنے کا ان کے پاس کوئی سیاسی یا اخلاقی جواز باقی نہیں رہے گا۔
ویسے بھی بادی النظرمیں محسوس یہی ہوتا ہے اور لگتا بھی یہی ہے کہ اب کی بار کشمیر کا رائے دہندہ نظریات اور مفادات کے حوالہ سے مختلف خانوں میں تقسیم ہے اور کسی بھی حوالہ سے نہیں لگتا کہ کشمیر سے کسی ایک پارٹی کو قطعی منڈیٹ حاصل ہوگا۔ اگر چہ پی ڈی پی اپنی کئی ایک غلط کاریوں، ہزیمتوں اور اخلاقی اور سیاسی پستیوں کے بعد سے اب کسی حد تک اپنی بحالی کی سمت میں قدم بڑھا رہی ہے جبکہ نیشنل کانفرنس کو اپنے مضبوط حلقوں میں ابھی بھی پذیرائی حاصل ہے لیکن اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس اپنے اپنے اثرورسوخ والے حلقوں میں اپنے قدم جمانے اور عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
اس حوالہ سے مختلف پہلوئوں کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے تجزیہ کیاجاسکتا ہے لیکن اس تجزیہ کیلئے ابھی وقت مناسب نہیں۔ لوگ بڑی گہرائی اور تمام ترتوجہ کے ساتھ ہر پارٹی کے بیانات، اشوز کے تعلق سے ان پارٹیوں کے انداز فکر اور اپروچ، وفاداریوں اور وابستگیوں اور روابط وغیرہ کے تعلق سے معاملات پر نگاہ رکھ رہے ہیں، لیکن ان مخصوص چند امورات کے علاوہ بھی کئی دوسرے فیکٹر ہیں جو پوشیدہ بھی ہیں اور عیاں بھی ہیں پر بھی لوگوں کی توجہ ہے۔
کشمیر نشین کچھ پارٹیوں کو اب تک چنا ب خطے سے کچھ نہ کچھ حاصل ہوتا رہا ہے لیکن اب کی بار لگتا ہے کہ چناب کے ارادے اور عزائم کچھ اور ہیں۔ اس مخصوص خطے میں چند ایک پارٹیوں نے طبقاتی، فرقہ واریت ، لسانیت وغیرہ کچھ مخصوص خطوط پر کام کرتے ہوئے اندر گہرائی تک رسائی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے جس کا نقصان روایتی سیاسی پارٹیوں کو ہوسکتا ہے۔ جبکہ سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد بھی اپنا نیا سیاسی کیرئیر کے تحت اپنی تمام تر توانائی اور توجہ کو بھی اسی مخصوص خطے پر لگارہے ہیں ، اگر آزاد صاحب اس خطے سے کچھ حاصل کرنے میںکامیاب رہے تو وہ اسمبلی انتخابات کے بعد تشکیل حکومت کی سمت میں’’کنگ میکر‘‘ کے طور پر اُبھر سکتے ہیں، لیکن کانگریس سے علیحدگی اور اپنی قیادت میں آزاد پارٹی کے قیام کے بعدانہیں عوامی اور سیاسی سطح پر جو پذیرائی ملی تھی اُس پر خود انہوںنے پانی کی مشکیں پھیرلی اور اب وہ سمیٹ کر چناب خطے تک محدود ہوگئے۔