نئی دہلی//
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ملک کی خارجہ پالیسی ہمیشہ باہمی تعاون پر مبنی ہونی چاہئے‘جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی‘ عمر عبداللہ نے پیر کو کہا کہ اگر چین ’ایک ہندوستان‘کی پالیسی کو قبول نہیں کرتا ہے تو نئی دہلی کو بیجنگ کی ’ایک چین‘ کی پالیسی کی حمایت پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔
یہ پوچھتے ہوئے کہ چین کو جموں کشمیر یا ہندوستان کے کسی دوسرے حصے میں کسی بھی ملاقات سے مسئلہ کیوں ہونا چاہئے، نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ اگر چین اس موقف پر قائم رہتا ہے تو ہندوستان کو تبت، تائیوان اور ہانگ کانگ پر بھی سوال اٹھانا چاہئے۔
پیر کودہلی میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا’’میرے خیال میں یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت ہند اپنی (ایک چائنا) پالیسی کو دہراتی رہتی ہے پھر بھی کسی وجہ سے، چین اس کا مثبت جواب نہیں دیتا۔
جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی کاکہنا تھا’’ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ باہمی تعاون پر مبنی ہونی چاہیے۔ اگر چین ون انڈیا پالیسی کو قبول نہیں کرتا ہے تو پھر انڈیا کو ون چائنا پالیسی کیوں قبول کرنی چاہیے‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا’’یہ یکطرفہ نہیں ہونا چاہئے کہ صرف چین ہی سوال اٹھا سکتا ہے کہ ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے اور اس کے برعکس نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر چین یہ کام جاری رکھے گا تو ہندوستان کو بھی اپنی ون چائنا پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے‘‘۔
چین جوجی۲۰کا رکن ہے نے پاکستان کے ساتھ مل کر کشمیر میں جی۲۰ کی تقریبات منعقد کرنے کے فیصلے پر اعتراض کیا تھا، جسے وہ’متنازعہ‘ کہتے ہیں۔ چین اروناچل پردیش پر ہندوستان کی خودمختاری کو بھی متنازعہ بناتا ہے۔ بھارت نے چین اور پاکستان کے ایسے دعووں کو مسلسل مسترد کیا ہے۔
جب اس مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو، وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں پی ٹی آئی کو ایک خصوصی انٹرویو میں کہا تھا’’اس طرح کا سوال درست ہوگا اگر ہم ان مقامات پر میٹنگ کرنے سے گریز کرتے۔ ہماری اتنی وسیع، خوبصورت اور متنوع قوم ہے۔ جب جی۲۰ کے اجلاس ہو رہے ہیں تو کیا یہ فطری نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے ہر حصے میں میٹنگیں ہوں گی‘‘۔
بھارت نے سرینگر میں ۲۲مئی سے تین دن کے لیے سیاحت پر جی۲۰ ورکنگ گروپ کا تیسرا اجلاس منعقد کیا۔ چین کو چھوڑ کر تمام جی ۲۰ ممالک کے مندوبین نے اس تقریب کیلئے دلکش وادی کا دورہ کیا۔ بڑی تعداد میں مندوبین نے مارچ میںجی۲۰پروگرام کیلئے اروناچل پردیش کا دورہ بھی کیا تھا۔
چینی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے، ہندوستان نے تب کہا تھا کہ وہ اپنی سرزمین پر میٹنگ کرنے کیلئے آزاد ہے۔
ہندوستان کی جی ۲۰ کی صدارت کی مدت ختم ہونے تک، مودی نے کہا تھا، تمام ۲۸ریاستوں اور آٹھ مرکزی علاقوں کے۶۰ شہروں میں ۲۲۰سے زیادہ میٹنگیں ہو چکی ہوں گی، اور مزید کہا کہ تقریباً ۱۲۵ ممالک کے ایک لاکھ سے زیادہ شرکاء ہندوستانیوں کی مہارت کا مشاہدہ کریں گے۔ (ایجنسیاں)