کشمیر کا سیاسی منظرنامہ آہستہ آہستہ انتشار، بکھرائو اور اخلاقی انحطاط کے راستے پر گامزن ہے۔ آج کا سیاستدان اور سیاست کار کشمیرکے ا س مخصوص اُبھررہے سیاسی منظرنامے کو جہاں روایت سے ہٹ کر بدلائو قرار دے رہاہے وہیں اس بدلائو کو کشمیرکا نجات دہندہ بھی تصور کررہاہے۔
پہلے الزامات اور جوابی الزامات، طعنہ زنی اور کچھ حد تک کردارکشی سیاستدانوں کا آپسی طرہ ٔ امتیاز ہوا کرتا لیکن اب تاریخی واقعات اور تاریخی حقائق کو اپنے اپنے نظریے اور اختیار کردہ سیاسی موقفوں کے تعلق سے مسخ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ چھوڑی جارہی ہے۔ کشمیرکے اس بدلتے سیاسی منظرنامے کو دیکھ کر کبھی کبھی یہ محسوس ہورہا ہے کہ جیسے کشمیر کی سیاسی اُفق پر سرحد پار کے اُس ملک کی عمر انڈوسیاست سے عبارت اور فکرپر مبنی طرز عمل سایہ فگن ہورہاہے۔ ممکن ہے یہ محض ایک خیال ہولیکن کشمیر نشین بعض سیاستدانوں کے آئے روز کے بیانات سے شائستہ ، حساس ، ذمہ دار شہری یہی محسوس کررہے ہیں کہ کشمیرکی سیاست کا چہرہ بدل رہاہے جس سیاست میں عوام کی خواہشات، جذبات، محسوسات اور ضروریات کا نہ کوئی عمل دخل ہے اور نہ ہی احترام ملحوظ خاطر بلکہ یہ نئی اُبھر رہی سیاست چاپلوسی، خوشامدی ، ابن الوقتی، حرص وہوس اور استحصال سے عبارت محسوس کی جارہی ہے۔
وراثتی سیاست یا خاندانی سیاست کا عموماً تذکرہ بھی سننے میں آرہا ہے اور ریفرنس بھی دی جاتی رہی ہے۔ اس تذکرہ اور ریفرنس کے پیچھے زیر لب مخالفت اور ناپسندیدگی کے سوا کچھ نہیں جبکہ عوام کو اس حوالہ سے یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہم وارثتی یا خاندانی سیاست میںیقین نہیں رکھتے کیونکہ اس نوعیت اور ہیت کی سیاست معاشرے کے لئے ٹھیک نہیں ہے لیکن بعض سیاستدانوں کیلئے یہ اب ایک جملہ بن گیا ہے جس جملہ اور جس تنقید کاکوئی معقول اور باوزن جواز نہیں۔ کشمیرکی سیاست کے حوالہ سے اس جملہ کا عموماً نشانہ شیخ خاندان اور مفتی خاندان کو تصور کیاجارہاہے جبکہ زمینی سچ یہ بھی ہے کہ کم وبیش ہر کشمیر نشین سیاسی جماعت میںخاندانی سیاست سے وابستگان کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔
بظاہریہ نہ کوئی جرم ہے اورنہ کسی بھی ملک کے وسیع تر مفادات کے حوالہ سے غداری، کیا امریکہ کا کنیڈی خاندان کی مثال تاریخ سے ثابت نہیں،کیا بنگلہ دیش کا سیاسی نقشہ کچھ اور سمت کی طرف اشارہ کررہا ہے ، خود ہندوستان کا حال احوال کیا اس وراثتی اور خاندانی سیاسی رشتہ داری سے مستثنیٰ ہے، پھر سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی کاروباری گھرانہ کے چشم چراغ اُس خاندانی کاروبار کا حصہ بنتے ہیں، یاکسی ڈاکٹر کا بیٹا یا بیٹی بھی ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کرتی ہے تو اس جیسے دوسرے درجنون بلکہ سینکڑوں معاملات کو کس زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ بہرحال یہ بحث جس کی کوئی خاص معقول بُنیاد نہیں جاری رہیگی۔
بات کشمیر کی سیاست اور سیاسی منظرنامے کے حوالہ سے ہورہی ہے۔ سیاستدان اس سیاسی منظرنامے کو کس سمت کی جانب گھسیٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بے شک ان سیاستدانوں کا ماضی اور حال پوشیدہ نہیں البتہ ان کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ وہ جس طرز کی سیاست پر اب ایک کے بعد ایک گامزن نظرآرہاہے وہ سوالوں، خدشات اور قیاسات کو ضرور ہوا دے رہاہے۔ا بھی چند گھنٹے پہلے ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ کشمیرکے سیاستدان عوام سے ۷۴؍ سال سے جھوٹ بولتے آرہے ہیں یہاں تک کہ شیخ محمدعبداللہ بھی،سچ جانتے یا سچ کی علمیت رکھنے کے باوجود عوام سے جھوٹ بولتے رہے، اور پھر اسی لہجہ میں یہ بھی فرمایا کہ ’تلخ سچ یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں جموںوکشمیر کے مقدر میں ہندوستان کا حصہ بن جانا لکھا تھا‘لیکن عوام کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرکے سبز رومال اور کوہستانی نمک کی ڈھلیاں دکھاکر گمراہ کیاگیا۔
شیخ محمدعبداللہ مرحوم کے تعلق سے یہ بہت بڑا بیان نما دعویٰ ہے جو بادی النظرمیں ہی نہیں بلکہ تاریخی اور زمینی حقائق کے تناظرمیں جھوٹ کا پلندہ بھی ہے اور تاریخ کو جھٹلانے اور اب نئی چاہتوں سے مطیع ہوکر پیش کرنے کی سعی لاحاصل ہے۔ تاریخی سچ کیا ہے؟ڈوگرہ حکمران آزاد ریاست کا حامی تھا، وہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کے ساتھ یکساں تعلقات چاہتا تھا لیکن الحاق کا متمی نہیں تھا اور نہ ہی ڈوگرا حکمران کا وزیراعظم ۔ شیخ محمدعبداللہ جناح کو جوا ب دے چکا تھا، اور اپنے اسی جواب کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے قبائلی حملے کی مزاحمت میں میدان میں اُتر گیا، دہلی سے مدد مانگی لیکن دہلی نے الحاق کی شرط عائد کردی۔ الحاق کو یقینی بنانے کیلئے کیا کچھ معاملات پیش آئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں اورآج ۷۵؍ سال بعد شیخ عبداللہ کے رول کے حوالہ سے اس تاریخی حقیقت کو جھٹلانے اور شیخ عبداللہ کو جھوٹا قرار دینے کی کوشش ناقابل فہم ہے۔ مختصر الفاظ میں شیخ محمدعبداللہ کو ملک کے ساتھ الحاق کا محرک اور خالق قرار دیاجاسکتا ہے ۔
البتہ یہ سچ ہے کہ کشمیرکے اکثر وبیشتر سیاستدان جھوٹ کی سیاست کا بازار سجاتے چلے آرہے ہیں۔ جھوٹ کی یہ دکانیں محاذ رائے شماری، کانگریس، نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی ، پیپلز کانفرنس کے ساتھ ساتھ اب جو نئی جماعتیں معرض وجودمیں لائی گئی ہیں سجائی جاتی رہی ہیں، کوئی ایک سیاست کار کیا یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اُس نے عوام کے سامنے جھوٹ نہیں بولا یا جھوٹ کا سہارا لے کر اپنی سیاست نہیں چلائی؟ غالباً ایک بھی صف میں نظرنہیںآئیگا۔
مثالیں کئی ہیں، کس کس کا احاطہ کیاجائے، جن لوگوں نے بندوق اُٹھائی او رکشمیر کے حوالہ سے ہندوستان کے خلاف بغاوت کا جھنڈا لہرایا، کشمیر پر ملک کی سالمیت اور سرداری کو چیلنج کیا آج دوسرے سیاسی وغیر سیاسی چوغے پہن کر کیا مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ نہیں؟ کیا وہ لوگ جو عسکریت کے عروج کے زمانے میں حوالہ میں سراتا پا ملوث رہے ہیں ان میں سے کئی ایک کیا آج کئی سیاسی جماعتوں میںنئے اوتاروں کے روپ میں موجود نہیں، ان پر سچ اور جھوٹ کی انگلیاں کیوں نہیں؟
کشمیر اور کشمیری عوام ۷۵؍سال سے جن پریشانیوں، تکالیف، الجھنوں اور سیاسی ومعاشی بدحالی سے جھوجتے آرہے ہیں وہ عوام کی اپنے اوپر مسلط کردہ یا مرہون منت نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی کشمیر نشین مختلف سیاسی نظریات کے حامل سیاستدانوں کی سیاسی لن ترانیوں اور ملازمانہ رول کی ہی مرہون منت ہے۔ لیکن ایک بھی سیاستدان نے ذرہ بھر بھی خمیازہ نہیںبھگتا، اگر خمیازہ بھگتا تو براہ راست اوسط شہری ہے جو یہ سب کچھ برداشت کرتا آرہاہے۔
اب جبکہ عوام نے بحیثیت مجموعی بدلائو دیکھا، روایتی سیاست سے پیچھے ہٹ رہے ہیںتو کچھ سیاستدان نیا رنگ وروپ، بہرو پیا اور گرہ گٹ کے سبھی پیرھنوں کے ساتھ جلوہ گر لوگوں کو ایک نئی قسم کی انتشاری سیاست کے دلدل میں جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں۔