کانگریس سے کنارہ کشی اور اپنی قیادت میں نئی سیاسی پارٹی کی تشکیل کے ردعمل میں جموںوکشمیر کے طول وارض میں ایک ایسی سیاسی آندھی چلی جس نے سیاسی گھونسلوں کو تہس نہس ہی نہیں کیا بلکہ ان میںموجود بہت سارے چھوٹے بڑے اور کسی حد تک اپنے اپنے علاقوں کی مناسبت سے کئی قد آور سیاستدانوں کو بھی ہوا کے دوش اُٹھا کر غلام نبی آزاد کی جھولی میں ڈالدیا۔ دہلی سے جموں آمد پر لوگوںاور سیاسی ورکروں کی ایک بہت بڑی تعداد نے والہانہ استقبال کیا۔ یہ منظردیکھ کر یہی فوری تاثر پیدا ہوا کہ جموںوکشمیر ایک نئی سیاسی تبدیلی کی طرف گامزن ہورہا ہے اور یہ تبدیلی اب روایتی سیاست، سیاسی فکر اور سیاسی اپروچ سے ذرا ہٹ کر بحیثیت مجموعی سب کیلئے ایک نئی صبح کی نوید ثابت ہوگی۔
لیکن ایک سال سے بھی کم عرصہ میں نئی صبح کی یہ نئی نوعید بتدریج مدھم پڑتی جارہی ہے۔جولوگ آندھی کے زور پر اپنے سیاسی گھونسلوں کو خیر باد کہہ کے آزاد صاحب کی گود میں آبیٹھے وہ اب آہستہ آہستہ کوئی انفرادی صورت میں تو کوئی گروپوں کی شکل میں واپس اپنے اپنے گھونسلوں کی اور رواں دواں دکھائی دے رہے ہے۔
ٍ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا یہ آزاد کی سیاسی ناکامی ہے، جموںوکشمیر کے سیاسی معاملات اور غیر سیاسی اشوز کے حوالہ سے آزاد کی کسی غلط ترجیح، کسی غلط حکمت عملی یا اور کسی منفیات کا براہ راست ردعمل ہے یا ان سے اب کنارہ کش ہورہے لوگ اپنے پرانے گھونسلوں کو ہی اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کی سمت میں اپنی کامیابی کا ضامن فرض کررہے ہیں ، کچھ قطعیت کے ساتھ کہا نہیں جاسکتا، البتہ جس تیزی کے ساتھ آزاد صاحب سے لوگ کنارہ کش ہوتے جارہے ہیں وہ منظرنامہ یقیناآزاد صاحب کیلئے کسی بہت بڑے لمحہ فکریہ سے کم نہیں بلکہ ایک حد تک انتہائی پریشان کن بھی ہے۔ اس منظرنامہ پر کانگریس کے کچھ لیڈران، جو کبھی آزاد صاحب کے ہم قدم، ہم خیال او رساتھی رہے ہیں کے تیکھے تبصرے یقینا آزاد کو کانٹوں کی طرح چبھتے محسوس ہورہے ہوں گے۔
ہندوستان کے سیاسی منظرنامے میں سیاست دانوں اور سیاسی ورکروں کا کنارہ کشی کرکے دوسری پارٹیوں میں شرکت ایک مستقل عمل ہے جو اب کسی بھی سیاسی فکر کے حامل سیاستدان کیلئے معیوب نہیں، ایسی کسی کنارہ کشی کے لئے عام طور سے جو وجوہات سمجھے اور جانے جاتے ہیں ان کا تعلق عہدہ داری سے انکار یا معذرت ، منڈیٹ کا نہ ملنا، سکیورٹی حصار کا مسئلہ ، فیصلہ سازی میں عدم شرکت یا کچھ ایسے ہی ملتے جلتے معاملات سے ہوتا ہے لیکن آزاد کی پارٹی ابھی جمعہ جمعہ ۸؍دن بھی نہیں ہوئے کہ سرمنڈواتے ہی اس پر اولوں کی برسات ہونے لگی۔ کیا جو لوگ اس کے چرن میں آئے تھے، ان کی کچھ اُمیدیں وابستہ رہی تھی لیکن اب کچھ دیر تک پارٹی کے ساتھ وابستہ رہ کر انہیں محسوس ہورہا ہے کہ ان کی توقعات پوری نہیں ہوں گی، یا وہ کسی آزاد مخالف کچھ حلقوں کے پروپیگنڈہ کے زیر اثر آگئے کہ انہوںنے آزاد سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس حوالہ سے اس بات کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے کہ جو لو گ آزاد کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے کچھ ہی دیر بعد واپس کانگریس میںشامل ہوگئے تھے کئی ماہ گذرنے کے باوجود ان کی پارٹی میں سیاسی بحالی ابھی تک نہیں کی گئی ہے۔ وہ فی الحال حاشیہ پر ہیں اور کانگریس ہائی کمان کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ بے شک واپس آنے والوں کا پھول مالا ئیں پہنا کر اور فوٹو سیشن منعقد کرکے استقبال کیا جارہا ہے لیکن یہ سارا عمل سیاسی اور روایتی ہے جس کے پیچھے مقاصد کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔
بہرحال اس مخصوص منظرنامے جس کا تعلق آیا رام گیا رام کی طرز سیاست سے ہے سے قطع نظر ایک عمومی تاثر آزاد کے بارے میں یہ اُبھرتا محسوس کیا جارہاہے کہ آزاد نے اپنی سیاست، اپروچ اور نظریہ کو وادی چناب کی تنگ گلیوں تک محدود کرلیا اور بار بار اس خطے کو ترقیات سے محروم رکھے جانے کی بات کرکے وہ خود کو ’’علاقہ پرست‘‘ ظاہر کررہے ہیں۔ ممکن ہے یہ سوچ یا تاثر مفروضوں پر مشتمل ہو حالانکہ آزاد خود بار بار یہ اعلان کررہے ہیں کہ ان کا ایجنڈا علاقہ پرستی ، فرقہ پرستی ، مذہب پرستی ایسے خولوں سے باہر ہر خطے او رطبقے کی یکساں ترقی اور ترقیاتی عمل میں برابر کی حصہ داری سے عبارت ہے۔ لیکن آزاد سے مخصوص علاقہ پرستی کو منسوب کرنے کا جو تاثر عوام میں پیدا کیاگیا وہ خود آزاد کے لئے لمحہ فکریہ اور غوروفکر کا مقام ہونا چاہئے کہ آخر کون ہے جوان کے بارے میں اس نوعیت کے منفی تاثرات اور ’پرستی‘ سے عبارت لیبل ان کے ماتھے پر چسپاں کرکے انہیں اور ان کی سیاست اور ان کے ایجنڈا کو مخصوص علاقہ تک محدود رکھنے پر کمر بستہ ہے۔ ظاہر ہے کوئی تو ہوگا، وہ کون ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ جو کوئی بھی ہے وہ آزاد کا سیاسی مخالف ہی ہوگا۔
آزاد کے کچھ سیاسی مخالفین انہیں اس بات کیلئے بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اور سوال پر سوال کررہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کی رکنیت سے فارغ ہونے کے باوجود کئی ماہ گذر گئے ، لیکن آزاد دہلی میں اس بنگلہ میں بدستور رہائش پذیر ہیں جو انہیں بحیثیت رکن پارلیمنٹ الاٹ ہوا تھا۔ جموں وکشمیر میں کانگریس سے وابستہ کچھ لیڈران یا عہدیدار بھی مختلف معاملات کو لے کر آزاد کو نشانہ بنارہے ہیں یہاں تک کہ انہیں کچھ بی جے پی کا حامی اور کچھ ’بی‘ٹیم کا اعزاز بھی عطاکررہے ہیں۔
اسی پر اکتفا نہیں ، اب آزاد سے منسوب دفعہ ۳۷۰؍ کے بارے میں کچھ حالیہ بیانات کو لے کر بھی انہیں نشانہ بنایاجارہاہے۔ اس مخصوص اشو کو لے کر انہیںنشانہ بنانے والوں کے بیانات از خود ابہامات کے گہرے بادلوں سے ڈھکے ہیں۔ آزاد اگر چہ ان یا ان میں سے کچھ اشوز کو لے کر خاموش نہیں ہیں لیکن موثر طور سے اپنا دفاع نہیں کرتا نظرآرہاہے ۔ ان کی پارٹی میںموجود کچھ بڑے لیڈر بھی ہیں لیکن وہ خاموش ہیں اور ان کی طر ف سے کوئی بھی حرکت دکھائی نہیںدے رہی ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے آزاد کی حیثیت اپنی ہی تشکیل شدہ پارٹی کے حوالہ سے ’’ون مین آرمی‘‘ کی سی ہے۔ یہ ان کی پارٹی کے مستقبل کے تعلق سے کسی صحت مند علامت کا عندیہ نہیں۔