منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

کیا واقعی مفتی سعید اقتدار پرست نہیں تھے؟

محبوبہ جی دعوئوں سے قبل تاریخ کا بھی مطالعہ کریں

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2023-08-02
in اداریہ
A A
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ( پی ڈی پی) نے اپنا یوم تاسیس منایا۔ اب کی بار ذرا مختلف اور تھوڑا ساہٹ کے…مرکز میںحکمران جماعت بی جے پی کو خوب لتاڈا، وعدہ شکن قرار دیا جبکہ اپنے ساتھ گپکار الائنس کی شریک پارٹی نیشنل کانفرنس پر نوجوانوں کو تشدد پر اُکسانے کا دعویٰ کرکے سارا ملبہ اس پارٹی پر ڈالدیا۔ برعکس اس کے مقررین نے اپنی پارٹی کو کشمیرکا مسیحا اور عزت وآبرو اور باوقار زندگی گذارنے کا ضامن کے طور پیش کردیا۔ پارٹی کے مقررین نے اپنی تقریر وں میں جو کچھ بھی دعویٰ کئے وہ کس حد تک سچ ہے اور اگر سچ ہے تو کیا زمینی حقیقت ان کی تصدیق کرتی ہے؟
تاریخ کے تناظرمیں پارٹی صدر محبوبہ مفتی کی تقریر کے اُس حصے سے شروع کرتے ہیں جس میں انہوںنے اپنے والد مرحوم مفتی محمدسعید کے بارے میں دعویٰ کیا کہ وہ اقتدار کے بھوکے نہیں تھے، اگر ہوتے تو وہ بی جے پی کے ساتھ حکومت کی تشکیل کے حوالے سے تین ماہ انتظار نہ کرتے۔ بحیثیت پردیش کانگریس صدر مفتی محمدسعید نے ۱۹۷۵ء میں اندرا …شیخ اکارڈ کی روشنی میں مرحوم شیخ محمدعبداللہ کی اقتدار پر واپسی کو تسلیم نہ کرتے۔
یہ دونوں دعویٰ غلط ، گمراہ کن اور مفتی مرحوم کو ان کے اپنے سیاسی قد سے اونچا اور قدآور کے طور پیش کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ بی جے پی کے ساتھ تشکیل حکومت کا معاہدہ ان کی اقتدار پر ستی سے ہی عبارت تھا، سودا طے کرنے میں وقت تو درکار ہوتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مفتی محمد سعید نے جموں وکشمیر باالخصوص کشمیر میں اپنی الیکشن مہم کے دوران لوگوں سے بی جے پی کی مخالفت میں یہ کہکر ووٹ طلب کرلیا کہ کشمیرمیں بی جے پی کا راستہ روکنے کا واحد آپشن یہ ہے کہ ’میری پارٹی کو بھر پور منڈیٹ تفویض کیاجائے، لیکن جب نتائج سامنے آئے اور تشکیل حکومت کا مرحلہ پیش آیا تو مفتی مرحوم نے ہمالیائی حجم کی وعدہ شکنی کرکے یہ کہکر بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا کہ سائوتھ اور نارتھ کا تقاضہ یہی ہے ۔
اس یاد دہانی کا منشا یہ نہیں کہ آج کی تاریخ میں ماضی کے فیصلوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر مفتی مرحوم پر یہ کہکر تنقید کی جائے کہ اُس نے کیوں تشکیل اقتدار کی خاطر بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا جس کے لئے بُنیادی سطح پر مذاکرات کو منطقی انجام تک لے جانے کیلئے حسیب درابو اور مظفر حسین بیگ نے اہم کردار اداکئے بلکہ یہ ہے کہ ماضی کے حوالہ سے پیش آمدہ حالات واقعات کو اُن کے صحیح سیاق وسباق کے تناظرمیں موجودہ پود کے سامنے رکھا جائے جبکہ تاریخی سچ اور زمینی حقائق کو پردوں کی اوٹ میں کرنے سے حاصل تو کچھ نہیں ہوگا البتہ جو لوگ حقائق اور معلومات کی علمیت رکھتے ہیں اور پیش آمدہ حالات واقعات سے آگہی رکھتے ہیں اس جھوٹ اور پروپیگنڈہ سے ان کے ذہن میں جو نقشہ گھر کر چکا ہوتا وہ تاش کے ۵۲؍ پتوں کی طرح بکھر کر زمین پرآجاتا ہے۔
محبوبہ جی نے بی جے پی پر آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ کے بارے میں حکمران جماعت پر وعدہ شکنی اور عہد شکنی کا الزام عائد کردیا ہے اور کہا کہ جو معاہدہ مفتی محمدسعید اور بی جے پی کے درمیان ہوا تھا اُس میںمخصوص طور سے بی جے پی کو اس بات کا عہد بند بنایا گیا تھا کہ وہ اس خصوصی دفعہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گی لیکن بی جے پی بعد میں مکر گئی۔ بی جے پی کیوں مکر گئی اس بارے میں محبوبہ جی باالکل خاموش ہیں۔ البتہ لوگوں کی یاداشت اتنی بھی کمزور نہیں کہ یہی وہ مرحلہ تھا جب مخلوط حکومت کے اندر ہی اندر کچھ سنگین نوعیت کے معاملات سراُبھار رہے تھے اور محبوبہ جی کی کابینہ میںوزارتی عہدے پر متمکن ان کے بھائی تصدق مفتی نے ایک بیان میں ’اپنی پارٹی … پی ڈی پی اور بی جے پی کو کرائم ان پارٹنر ‘قرار دے کر جموںوکشمیر کے آر پار سیاسی و عوامی حلقوںکو جھنجھوڑ کر رکھدیا تھا۔ اُس بیا ن کے بعد ہی مخلوط حکومت کا کچا دھاگہ بوسیدہ ہوتا گیا۔
کیا واقعی مرحوم مفتی محمدسعید اقتدار کے بھوکے نہیں تھے اور کیا واقعی محبوبہ جی کا اس بارے میں بار بار کے دعویٰ سچ ہیں۔ غالباً نہیں !بحیثیت وزیرداخلہ ان کا یہ نعرہ ملک بھر میں مشہو راو رزبان زدہ عام رہا کہ ’’بولی سے نہیں بلکہ بات بنے گی گولی سے‘‘ ۔ ڈائون ٹائون سرینگر کی زائد از تیس فیصد آبادی زائد از تیس سال گذرنے کے باوجود ابھی بھی مرحوم مفتی کو میر واعظ کشمیر مولانا محمدفاروق کے جلوس جنازہ پر گولیوں کی برسات، جس میںدو درجن کے قریب سوگوار جاں بحق ہوئے، کیلئے مفتی کو براہ راست ذمہ دار تصور کرتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ جب اقتدار پر جلوہ گر ہوئے تو اپنے بولی اور گولی کے نعرے کی شکل اور ہیت تبدیل کرکے یہ نعرہ بلند کیا کہ ’’گولی سے نہیں بلکہ بات بنے گی بولی سے‘ ‘لیکن اس نعرے کے باوجود عسکریت پسندوں کا جو گروپ مرکز کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوا اور مرکزی قیادت کے ساتھ دہلی جاکربات بھی کی کو پُراسرار طور سے ایک ’معرکہ ‘ میں صفایا کرایاگیا۔
محبوبہ مفتی نے اپنی تقریر میں اپنے والد مرحوم کے بارے میں ’اقتدار پرست ‘ نہ ہونے کی ایک اور سند اجرا کرکے یا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کے والد نے ریاستی کانگریس صدر ہونے کے باوجود اندرا …شیخ اکارڈ کو تسلیم کیا‘۔ محبوبہ جی کا یہ دعویٰ سو فیصد درست اور حقائق پر مبنی ہے کہ اگر مفتی مرحوم اقتدار پرست ہوتے تو ریاستی کانگریس کے صدر کی حیثیت سے اکارڈ تسلیم نہ کرتے۔
محبوبہ مفتی غالباً اپنے والد کے اُس وقت کے سیاسی قد کو ملحوظ خاطر رکھنے میںکچھ زیادہ ہی کسر سے پیش کررہی ہے۔ اندرا …شیخ اکارڈ کے حوالہ سے فیصلے سرینگر یا جموں میںنہیں بلکہ دہلی کے اعلیٰ حکومتی اور کانگریس پارٹی کے ایوانوں میںلئے جاتے تھے۔ مقامی پارٹی لیڈروں اور عہدیداروں کی اُس فیصلہ سازی میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ البتہ اکارڈ کو قدم قدم پر ناکام بنانے اور مرحوم شیخ محمدعبداللہ کو قدم قدم پر ذلت اوررسوائی سے ہم کنار کرانے میں مقامی کانگریس لیڈروںکا بہت بڑا رول رہا۔ کس طرح شیخ مرحوم کو اکارڈ کے بعد مختلف معاملات کے حوالہ سے قدم قدم پر دھوکہ دیا جاتا رہا ، ان کے لئے مشکلات پیدا کی جاتی رہی، اور پھر کس طرح کانگریس کی مقامی لیڈر شپ نے شیخ محمدعبداللہ کو دیا گیا اعتماد واپس لیا اس کی تمام تر روئیداد سابق وزیراعلیٰ سید میر قاسم (مرحوم) اپنی سوانح ’’داستان حیات‘‘ میں تفصیلات کے ساتھ بیان کرچکے ہیں ۔
ٍ محبوبہ جی کو مخلصانہ مشورہ دیاجاسکتا ہے کہ وہ اس تعلق سے اپنے ذہن کو صاف کرنے کیلئے داستان حیات کے صفحات ۳۴۰ سے ۳۸۸؍ تک مطالعہ کریں توان کی سیاست میںکچھ شعور اور بالید گی آجائیگی اور تب کہیں جاکر انہیں اپنے والد کی سیاست اور سیاسی سوچ سمجھ آجائیگی۔
مفتیوں اور پی ڈی پی سے ذرا ہٹ کر نیشنل کانفرنس کی موجودہ لیڈر شپ جو کانگریس کی آج بھی ذہنی غلام دکھائی دے رہی ہے مرحوم میر قاسم کی سوانح داستان حیات کا مطالبہ کریں تو شاید ان کے پلے بھی کچھ بات پڑے کہ کانگریس کا کشمیرکے حوالہ سے ماضی کیا رہا ہے اور اپنے بانی لیڈر کے ساتھ انہوںنے کیا کچھ نہیں کیا ۔(جاری)
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

این سی‘پی ڈی پی…تھوڑا صبر کریں!

Next Post

ویسٹ انڈیز کے ٹی20 اسکواڈ میں ہوپ، ہیٹ مائرکی واپسی

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
ویسٹ انڈیز کے ٹی20 اسکواڈ میں ہوپ، ہیٹ مائرکی واپسی

ویسٹ انڈیز کے ٹی20 اسکواڈ میں ہوپ، ہیٹ مائرکی واپسی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.