سرحد کے اُس پار ستلج علاقے میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے کے دوران پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ ہندوستان اور پاکستان کے منشیات کے سمگلروں کے درمیان گہرے تعلقات ہیں اور منشیات کو آر پار لانے لے جانے کیلئے وہ ایک دوسرے سے تعاون کرکے اب ’ڈرون‘ کا بھی استعمال کررہے ہیں۔
پاکستانی اعلیٰ عہدیدار کا یہ انکشاف غیر معمولی ہے اور سرحد کے اِس پار باالخصوص کشمیر اور ملک کی کچھ سرحدی ریاستوں میں منشیات کی سمگلنگ ، کھیپ اور خرید وفروخت کے حوالہ سے تمام ابہامات اور مفروضے ہوا میں تحلیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جوا ب تک اس حوالہ سے فرض کئے جاتے رہے ہیں ۔ ساتھ ہی اس انکشاف سے یہ بات بھی واضح طور سے سامنے آئی ہے کہ منشیات کی سمگلنگ اور کاروبار میں جو بھی ملوث اور سرگرم ہیں وہ نان سٹیٹ ایکٹر ہیں بلکہ اس ناجائز اور غیر قانونی ٹریڈ کو سرحد کے آر پار کسی سرکاری ادارے کی معاونت اور سرپرستی حاصل نہیں ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کی کروڑوں آبادی کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ انہیں افغانستان کی شکل وہیت میں ایک ایسا ہمسایہ ملا ہے جو نہ کسی معاشی اور معاشرتی پہلو سے کسی اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پاسبان ہے اور نہ ہی منشیات کی پیداوار، اس کے استعمال ، نشہ آور مصنوعات اور اشیاء کی مارکیٹنگ اور کاروبار کو معیوب سمجھ رہا ہے ۔ بلکہ تلخ سچ تو یہ ہے کہ خود افغانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ، ڈی ایڈیکشن مراکز میں بحالی کے مراحل سے گذر رہی ہے ، طالبان برسرجدوجہد تھے تو اپنے اخراجات کی بھر پائی کے ایک حصے کیلئے منشیات کی پیداوار، سمگلنگ او رکاروبار پر انحصار کیاکرتے رہے اور اب جبکہ زائد از دو سال سے اقتدار میں ہیں تو بھی اس لعنت کے خاتمہ کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اُٹھایا جارہاہے۔
افغانستان سے منشیات کی ایک بہت بڑی کھیپ پاکستان کے مختلف علاقوں میں سمگل کی جارہی ہے جہاں سے اس لعنت سے وابستہ سمگلرمختلف راستوں سے دوسرے ممالک باالخصوص ہندوستان کی طرف سمگل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ کشمیر کے تناظرمیں دیکھاجائے تو یہ ہم سب کشمیریوں کیلئے بحیثیت مجموعی ایک ایسے خطرے کی علامت اور گھڑی ہے جو ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنے پورے حجم اور امکانی نتائج کے ساتھ کشمیرکے وجود کو ہلاکے رکھ رہے ہیں۔
ضلع بارہمولہ …جو اعداد وشمارات ابھی چند گھنٹے قبل سرکاری ادارے کی جانب سے سامنے لائے گئے ہیں وہ نہ صرف چونکا دینے والے ہیں بلکہ ہر اعتبار سے ہوشربا اور باعث تشویش ہے۔۱۸۷؍ایف آئی آر پولیس درج کر چکی ہے، ۳۱۸؍ منشیات کی کاروبار سے وابستہ افراد حراست میں ہیں ان میں ۳۸؍سخت گیر وہ ہیں جن کے خلاف گذشتہ ۶؍ماہ کے دوران پبلک سیفٹی ایکٹ نافذ کردیاگیا ہے۔ ضلع میںپولیس کی نگرانی میںڈی ایڈیکشن مرکز اس سمت میںاپنا کردار اداکررہا ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سمگلروں اور عادی افراد کا شکنجہ کسنے کی سمت میں موثر اقدامات کئے جارہے ہیں جن کے حسب توقع نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
پنجاب ، گجرات ،راجستھان ، مہاراشٹر اور دوسرے ساحلی علاقوں سے گذشتہ چند برسوں کے دوران اربوں روپے مالیت کی منشیات ضبط کر لی گئی ہے۔ ابھی ۲؍ روز قبل ایک لاکھ چالیس ہزار کلومنشیات کی مختلف اقسام جن کی مالیت ۲۳۷۸؍ کروڑ روپے بتائی گئی کو تلف کردیا گیا جس تلفی کا مشاہدہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ورچیول موڈ سے کیا۔ اس مرحلہ پر اعلان کیاگیا کہ منشیات سمگلروں کی جائیدادوں اور اثاثوں ، جہاں کہیں بھی ہیں، کو ضبط کرلیاجائے، اس تعلق سے جموں وکشمیر ایڈمنسٹریشن بھی پہلے ہی فیصلہ کرچکی ہے کہ منشیات کے کالے دھندہ سے وابستہ لوگوں کی جائیدادوں اور اثاثوں کو ضبط کرلیاجائیگا۔ منشیات کا دھندہ ختم کرنے کی سمت میں جو کاوشیں کی جارہی ہیں جائیدادوں اور اثاثوں کی بہ حق سرکار ضبطی اُس حوالہ سے دور رس نتائج کا حامل ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ کشمیرمیں ہرسال سینکڑوں کنال اراضی پر بھنگ کی کاشت کی جارہی ہے ۔ ہر سال کچھ سرکاری محکمے آپس میں ملا کر اُن اراضیوں پر دھاوا بول کر بھنگ کی فصل تباہ کررہے ہیں لیکن یہ طریقہ کار غیر موثر ثابت ہورہا ہے۔ متعلقہ سرکاری اداروں کا یہ طریقہ کار فرسودہ ، غیر موثر اور روایتی ہے جو کسی بھی حوالہ سے کاشت کاروں کیلئے موجب عبرت ثابت نہیں ہورہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار مطالبہ کیا جاتا رہا کہ جو بھی اراضی بھنگ کی کاشت کے دائرے میں لائی جاتی رہے اُس اراضی کو کم سے کم ۵؍سال کی مدت تک کیلئے بحق سرکار ضبط کرلیا جائے اور اس ضبط شدہ اراضی کو محکمہ ایگریکلچر یافلوریکلچر کی تحویل میں دے کر سبزیوں اور پھولوں کی کاشت کی جائے۔
کشمیراور جموں دونوں راجدھانیوں میں نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد منشیات کی لت میں مبتلا ہوتی جارہی ہے۔ منشیات کی لت میں گرفتار افراد کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہاہے۔ اس کے ساتھ ہی مختلف نوعیت کے جرائم کا گراف بھی بڑھتا جارہاہے۔ یہ منظرنامہ نہ صرف اوسط شہریوں بلکہ حکومت اور اس کے اداروںکیلئے بھی فکرمندی کا باعث بن رہا ہے ۔ صورتحال پر قابو پانے کیلئے کچھ غیر روایتی اقدامات اور کچھ سخت ترین فیصلے لینے ہوں گے لیکن اس کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ متاثرہ افراد کے والدین اپنے سارے اگر اور مگر کے خولوں سے باہر آکر اپنا تعاون پیش کریں۔
بہرحال اس سارے تناظرمیں پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار کا یہ انکشاف اور اعتراف کہ سرحد کے آر پار ہندوستان اور پاکستان کے منشیات کے سمگلر ایک دوسرے کا تعاون کررہے ہیں اور اس مشترکہ کاروبار کو پھیلا رہے ہیں یہ لازمی بن جاتا ہے کہ دونوں ملک اس وبا کوختم کرنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں۔ الزامات اور جوابی الزامات کی بارش اس سنگین اور ہلاکت خیز مسئلے کا حل نہیں، منشیات کی سمگلنگ کیلئے ڈرون کا استعمال ایک بہت بڑے خطرے کی علامت ہے، اس خطرے کی بیخ کنی کی سمت میں ابھی سے اگر کوئی مشترکہ حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو یہ دونوں ملکوں کی نوجوان نسل کی تباہی وبربادی پر منتج ہوسکتی ہے۔
تعجب ہے سرحد کے آر پار کے سمگلر اپنے کاروبار اور مفادات کو تقویت پہنچانے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کررہے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی بھی بروئے کار لارہے ہیں تو حکومتیں اپنے اپنے ملکوں کے وسیع ترمفادات باالخصوص نوجوان پود کی صحت، سلامتی اور بقاء کے وسیع تر تناظرمیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیوں نہیں کرسکتی ؟