پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ایک مقامی ہوٹل پر چھاپہ مارکر کچھ افراد کو حراست میں لے لیا ہے جو کشمیرمیںعلیحدگی پسندی اور عسکری تحریک کے احیاء کے تعلق سے ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے کیلئے آپس میں مشاورت میں مصروف تھے۔ جن افراد کو حراست میں لیاگیاہے ان میں کچھ سابق عسکریت پسند اور کچھ ’مرحوم‘ حریت کانفرنس سے تعلق رکھتے ہیں۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اس حوالہ سے ان کے رابطے سرحد پار سے بھی ہیں۔ گرفتار افراد میں سابق حریت چیئرمین پروفیسر عبدالغنی اور ایک اور سابق حریت چیئرمین مرحوم مولانا عباس انصاری کے حاحبزادے بھی شامل ہیں۔
پولیس کے اس دعویٰ کے جو اب میں یہ لوگ حریت کا احیاء کا منصوبہ رکھتے تھے گھرمیں نظر بند میرواعظ کشمیر مولانا محمدعمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ انہیں ایسی کسی میٹنگ یا سرگرمی کی علمیت نہیں اور نہ ہی کسی حوالہ سے وہ اس سرگرمی سے وابستہ تھی، جو لوگ پولیس کے بقول آپسی مشاورت کررہے تھے وہ ان کا انفرادی فیصلہ ہوسکتا ہے جس کے ساتھ حریت کانفرنس کاکوئی تعلق نہیں۔
دونوں دعویٰ اپنی اپنی جگہ، فی الحال گرفتار افراد سے پوچھ گچھ جاری ہے۔ یہ پوچھ گچھ اپنے منطقی انجام تک کب تک پہنچ جائیگی اس پر نگاہ اور توجہ مرتکز رہیگی البتہ کچھ اہم سوالات ہیں جو توجہ طلب ہیں۔ کیا واقعی یہ لوگ احیا ء نو کے لئے آپس میں مشاورت کررہے تھے، اگر جواب اثبات میں ہے تو اُن سے پوچھا جاسکتا ہے کہ انہیں ایسا کرنے کا منڈیٹ کس نے تفویض کیا ؟ عوام کو اعتماد میں لئے بغیر وہ کس اخلاقی بُنیاد پر مشاورت کیلئے اکٹھا ہوئے؟ تیس سال تک حریت کانفرنس کے مختلف دھڑوں اور ان سے وابستہ مختلف اکائیوں بشمول عسکریت کے تحریک چلائی گئی، پوچھا جاسکتا ہے اور سوال واجبی بھی ہے کہ اُس تیس سالہ جدوجہد، قربانیوں، ازیت رسانیوں اور بستیوں کی بستوں کے کھنڈرات میںتبدیل ہونے کا آخر محاصل کیا رہا؟
کیا یہ سچ نہیں کہ متوازی حریت کانفرنسوں کاسیاسی وغیر سیاسی اپروچ، انداز فکر اور طرزعمل ہر ایک اعتبار سے منفی اور بحیثیت مجموعی عوام کے وسیع تر مفادات کے تعلق سے نقصان دہ ہی رہا، مذاکرات کو موقع دینے کی غرض سے دہلی اور دہلی کی سرحدوں کے دور سے مختلف بااختیار اعلیٰ سطحی وفود واردِ کشمیر ہوتے رہے لیکن لیڈر شپ کے دعویداروں نے کسی کو دہلیز کے اندر پائوں رکھنے کی اجازت نہ دے کر انہیں بے عزت کرکے واپس لوٹا دیا تو کسی کو اندر پائوں رکھنے کی اگر اجازت بھی دی تو غلامانہ اور ملازمانہ انداز فکر اور طرزعمل کے ساتھ ساتھ بے لچک اور غیر معقول رویہ اختیار کرکے اپنے نظریات ان پر ٹھونسنے کی سعی لاحاصل کرتے رہے۔ لوگوں کو بھی سبز باغ دکھائے جاتے رہے، خوشنما نعروں کے ساتھ انہیں گمراہ کرنے کا ہر حربہ اور ہتھکنڈہ بروئے کار لایا جاتا رہا۔ یہ سارے قصے اور کہانیاں اگر چہ ماضی ہیں لیکن ان سب کا سنجیدگی اور حقیقت پسندی کے ساتھ احاطہ کیاجائے تو جہلم کا پانی سیاہ تو ہوتا رہے گاالبتہ داستانیں کبھی مکمل نہیںہونگی۔
یہ ماضی احیا ء نو کے حامیوں اور علمبرداروں کیلئے کیا پوشیدہ ہے۔ کیا یہ ان کیلئے نوشتہ دیوار نہیں یا وہ پڑھ لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ خواہشات، احساسات اور جذبات کا ہونا اوران کا احترام اپنی جگہ مسلمہ لیکن جذبات اور خواہشات کی تکمیل اور حصول کیلئے جہاں زمین پر ٹھہر کر قدم رکھنے کی ضرورت ناگزیر ہے وہیں معقول حقیقت پسندانہ اور لچکدار رویہ اور اپروچ اس سے کہیں زیادہ ناگزیر ہے۔
عالمی سطح پر وقت نے ثابت کردیا کہ جنگجوئیت ، عسکریت یا دہشت گردی سیاسی ،غیر سیاسی یا معاشرتی مسائل اور معاملات کا حل ہے اور نہ واحد قابل عمل متبادل آپشن۔ مذاکرات چاہئے کسی آئین کے تحت ہوں یا کسی اور سطح پر ان کا کوئی متبادل نہیں بلکہ یہ وہ واحد آپشن ہے جس کو عالمی سطح پرپذیرائی حاصل ہے لیکن کشمیر اور کشمیری عوام کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ لیڈر شپ کے دعویدار ، جو بھی رہے ہیں وہ ہر دورمیں عوم کو اپنی تسخیر شدہ شئے اور بھیڑ بکریوں کا ریوڈ ہی تصور کرتے رہے ہیں۔
مذاکرات کی پیشکش کب اور کب نہیں ہوئی، کچھ دعویدار مذاکرات کی پیشکش کو اپنے تکبر میںٹھکراتے رہے اور جس کسی نے مذاکراتی عمل کا حصہ بننا چاہا تو اُسے نہ صرف یہ کہکر اس کی کردار کشی کی جاتی رہی کہ وہ گاندھیائی پیروکار بن گیا ہے بلکہ اسے غدار تک کی سند عطاکردی گئی۔ کون مذاکرات کی پیشکش ٹھکرا تارہا اور کون مذاکرات کا حصہ بننا چاہتا تھا وہ کردار اگر چہ پوشیدہ نہیں لیکن وہ وقت دورنہیں کہ یہ سارے عوامی دربار میں بے نقاب ہوکر رہیں گے۔
مذاکرات کی مخالفت کرنے والوں کی ایما ء پر کیا یہ تاریخی سچ نہیں کہ مذاکراتی عمل میںیقین رکھنے والے کئی ایک سنجیدہ اور حساس سیاسی اور کچھ دانشوروں سمیت کو راستے سے ہٹوا دیا جاتا رہا، یہ صرف اور صرف ان کے اختیار کردہ نظریہ بالادستی اور فکری جنون کا تسلسل تھا، حالانکہ عسکری تحریک کے آغاز میں اس طبقہ نے بار بار اعلان کیا کہ ’یہ جہاد نہیں سرزمین کشمیر پر فساد ہے‘ لیکن ان اعلانات کے کچھ ہی ہفتوں بعد اپنے عسکری بازو کو جنم دے کر میدان میں جھونک دیا گیا۔
بہرحال اس سارے تناظرمیں ایک اور توجہ طلب پہلو بھی ہے ، جس کا تعلق مین اسٹریم سے وابستہ ایک سیاستدان کی ان سرگرمیوں اور ملاقاتوں سے ہے جو حالیہ کچھ ایام میں مشاہدہ میں آئے ہیں ۔ سابق چیئرمین حریت کانفرنس پروفیسر عبدالغنی اور آغا سید الموسوی کے ساتھ ملاقاتوں کا پس منظر اور پیش منظر کیا تھا اس کے بارے میں کوئی خاص تفصیل یا وجہ ظاہر تو نہیں کی گئی البتہ لوگ ان مخصوص ملاقاتوں کے حوالوں سے اٹکلیں ضرور لگا رہے ہیں یا قیاس آرائیوں کا بازار گرم ضرور ہے۔ اس اثنا میں ہوٹل پر پولیس کی چھاپہ ماری اور دوسرے لوگوں سمیت پروفیسر کے حاحبزادے سمیت گرفتاری سے قبل مشاورت میں اس کی موجودگی نے نئے سوالوں کو ضرور جنم دیا ہے اور یہ قیاس آرائی ہورہی ہے کہ آیا کیا کوئی نئی کھچڑی سیاسی یاغیر سیاسی پک رہی ہے یا پکائی جارہی ہے۔