مہنگائی کا دیو ہندوستان پر سایہ فگن ہوچکا ہے، زندگی کاہر شعبہ مہنگائی کی چکی میں پستا ، دبتا اور کچلتا جارہاہے۔ یہ مہنگائی کسی فطرتی عمل یا ردعمل کا ثمرہ نہیں بلکہ مخصوص ذہنیت اور مصلحتوں کے حامل فیصلوں ، اندھے سیاسی مفادات اور بزنس اور کچھ متعلقہ فیصلہ ساز اداروں کی آپسی گٹھ جوڑ کا مسلط کردہ ہے، اس طرح عوام کے فوری اور قلیل المدتی مفادات کو ذبح کیا جارہاہے ۔
لوگ اس سارے عمل اور اس کے پس منظر کو اچھی طرح سے سمجھ بھی رہے ہیں اور بہ چشم خود دیکھ بھی رہے ہیں لیکن وہ بے بس ہیں، اس صورتحال کی مزاحمت کی نہ استعداد رکھتے ہیں، نہ قوت اور نہ ہی مزاحمت کا کوئی قابل عمل راستہ ۔ وہ خود سے صرف یہ سوال کررہے ہیں کہ اس مسلط کردہ مہنگائی کا دیو انہیں کب تک اور کتنی مدت میں پوری طرح سے حلق سے نیچے اتار ے گا۔ لوگ اس پر قابو پاتے یا بھر پور مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے اگر ان کی آمدن کے وسائل اور ذرائع محدود یا کم نہ ہوئے ہوتے۔
نوجوانوں کی لمبی سے لمبی ہوتی جارہی قطاریں روزگار کی تلاش میں ہیں، لیکن روزگار دستیاب نہیں، جنہیں روزگار دستیاب ہے وہ کمپنیوں ؍ فرموں کی طرف سے اپنی گردنوں پر لٹکتی تلواروں کی چُبن محسوس کررہے ہیںیا وہ جنہیں اب تک دروازہ دکھایا جاچکا ہے ۔ یہ ایک ایسا منظرنامہ ہے جو گھر کے واحد کفالوں کیلئے پریشان کن اور تکلیف دہ بنتا جارہاہے۔
مہنگائی کا یہ دیو اژدھے کی مانند اپنے پھن پھیلاتا جارہاہے ۔ ٹماٹر کچھ ریاستوں میں اڑھائی سو روپے تو کچھ میں ساڑھے تین سو روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہورہاہے۔ یہی ٹماٹر ابھی محض چند ایک ہفتہ قبل تک پچاس…ساٹھ روپے فی کلو کے حساب سے لوگوں کو دستیاب تھا۔ ٹماثر کی قیمتوں میںیہ اضافہ کیا اچانک ہے، کیا یہ کسی اور محرک یا نظر نہ آنیو الے عوامل کے عمل دخل کا نتیجہ ہے یا انتظامیہ کی کسی دخل اندازی کا شاخسانہ ، کچھ کہنا مشکل ہے۔ زیر ہ ابھی چند ہفتے تک اڑھائی سو روپے فی کلو دستیاب تھا اچانک ساڑھے ۸؍ سو روپے فی کلو تک چھلانگ لگائی، وجہ کیا ہے؟ اسی طرح روزمرہ استعمال کی کئی دوسری اشیاء کی اوسط قیمتوں میں بھی زبردست اضافہ کا عمل جاری ہے۔ اضافہ کی یہ دوڑ کہاں جاکر تھم جائیگی، تھم بھی جائیگی کہ نہیں کچھ کہنا ممکن نہیں۔
البتہ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس انداز اور رفتار سے مہنگائی ہورہی ہے اگر یہ رفتار جاری رہی تو آج کی تاریخ میں اگر سو روپے خر چ کرکے بازار سے کوئی دو اشیاء کی خریداری کی جائیگی تو اگلے ۲۴؍ گھنٹے بعد اسی سو روپے کے عوض صرف ایک اشیاء کی خریداری ممکن ہوپائیگی۔ ان کا کہنا اور ماننا ہے کہ ملک میں افراط زر کی شرحوں میں اضافہ مسلسل ہورہاہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی کی اس رفتار کی وجہ کیا ہے؟ ماہرین کے خیال میں اس کے کئی کارن اور عوامل ہیں۔ بعض معاملات میں خوش خرید کے حوالہ سے غیر مرکوزیت کو ختم کرکے مرکزیت کے دائرے میںلایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ابھی حکومت نے چند روز قبل ریاستوں کو حکم دیا کہ وہ مارکیٹ سے براہ راست غذائی اجناس کی خریداری نہ کریں بلکہ اس خریداری (خوش خرید) کے تمام اختیارات مرکز نے اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں۔ یہ روایتی طریقہ کار اور مارکیٹنگ کے حوالہ سے دہائیوں پر محیط نظم کی ضد بلکہ اب اجارہ داری کے زمرے میں آتاہے۔
ایک اور وجہ بڑے بزنس گھرانوں کی روایتی بزنس سے ہٹ کر Diversificationیعنی کاروبار کے تعلق سے پیداواری تبدیلی کے بڑھتے رجحانات سے بھی منسوب کیا جارہا ہے۔ یہ راستہ اختیار کرکے بزنس گھرانوں کی جانب سے من مانی قیمتوں کا تعین نہ صرف ان کے حداختیار میں چلا گیا ہے بلکہ ان سے بغیرکسی محاسبہ اور جواب دہی کے انہیں اجارہ داری کے حقوق بھی تفویض کئے گئے ہیں؟
اس تعلق سے کھانے کے تیل کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ گذرے دو برسوں کے دوران کھانے کے مختلف اقسام کی قیمتوں میں دو گنا اضافہ کردیاگیاہے لیکن اس اضافہ کیلئے کسی بزنس گھرانہ کو جواب دہ نہیں بنایاگیا ہے۔ رسوئی گیس کی قیمتوں میںاسی مدت کے دوران تقریباً پچاس فیصد اضافہ کرکے سرکاری تحویل میں مختلف تیل کمپنیوں کی تجوریوں کو لوگوں کی عرق ریزی اور خون پسنے کی کمائی سے بھرا جارہاہے۔
ملکی سطح پر بہت سارے شعبے ایسے ہیں جو مہنگائی اور مسلط کردہ گراں فروشی کی چکی میں بھی پس رہے ہیں اور دلدل میں دھکیلے جارہے ہیں۔ کس کس شعبے کا احاطہ کیا جائے، حوالہ دیاجائے، مختلف امراض میںمبتلا شہریوں کیلئے جان عزیز کی خاطر ادویات کا استعمال ناگزیر ہے لیکن ان ادویات پر ۱۲؍ فیصد ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر ان کا استعمال ممکن نہیں ، دعویٰ فلاحی ریاست ، فلاحی ملک اور فلاحی معاشروں کی نشو ونما کے ہیں۔
جموں وکشمیرکے حوالہ سے بات کی جائے تو یہ ملکی سطح کے اس مخصوص تناظرمیں مستثنیٰ نہیں، یہاں تو مہنگائی اور گراں فروشی کا دیو کچھ زیادہ ہی آوارہ گرد دکھائی دے رہاہے۔ کوئی شئے اور مصنوعات نہیں جو اس دیو کے سایہ میں نہیں، اب تو اوسط سبزی ساگ بھی سو روپے کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ مقامی چاول ہویا مقامی کدو، بینگن ، ٹماٹر وغیرہ بیرون کشمیر سے امپورٹ ساگ سبزیوںکی قیمتوں کے مقابلے میں ہر موسم میں اپنے پرانے قائم ریکارڈ کو توڑتے جارہے ہیں۔ گوشت پر سے قیمتوں کے سرکاری کنٹرول کو ہٹائے جانے کے بعدا س کاروبار سے وابستہ قصابوں اور کوٹھدار لوٹ کے نئے ریکارڈ قائم کرتے جارہے ہیں جبکہ گھٹیا معیار کا گوشت صارفین کو کھلانے کی کھلی لائسنس بھی ان کے ہاتھ لگ چکی ہے۔ اس گھٹیا معیار کے گوشت کا کھلا مظاہرہ حالیہ عید پر سامنے آیا ۔
کشمیر کے بازاروں میں کچھ مقامی ڈائری کمپنیوں کی جانب سے ڈبہ بند دہی ڈیڑھ سو روپے فی کلو میں فروخت کی جارہی ہے۔ کشمیرکی صوبائی انتظامیہ نہیں سمجھتی کہ ان کمپنیوں سے کسی محاسہ با جواب دہی کی ضرورت ہے۔ عوام کے مفادات یا حقوق کا تحفظ ترجیح یا مقدم نہیں البتہ سرمایہ دار بزنس گھرانوں کی لوٹ اور استحصال کا تحفظ گورننس کے تعلق سے چاٹر کا حصہ ضرور سمجھا جارہاہے۔