بدھ, مئی 14, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

دفعہ۳۷۰:سپریم کورٹ میں سماعت کا فیصلہ

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2023-07-06
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

خبر ہے سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ ۳۷۰ کو کالعدم قرار دیئے جانے کے حکومتی فیصلے کے خلاف دائر درخواستوں کی سنوائی کرنے کا فیصلہ کیاہے ۔ سپریم کورٹ میں دائر مختلف نوعیت کی پٹیشنوں کی سنوائی عرصہ سے نہیں ہورہی ہے اگر چہ عدالت عظمیٰ نے سنوائی کیلئے کئی بار تاریخیں مقرر کی لیکن سنوائی نہیں ہوئی۔ایسا کیوں ہوتا رہا اس بارے میں کوئی قابل قبول اور معقول وجہ عوام کی جانکاری کے حوالہ سے دستیاب نہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ نے ان گذرے برسوں کے دوران کسی ایک مرحلہ پر سنوائی کیلئے اپنی عدم دستیابی کی کوئی وجہ بیان کی ہے ۔ اگر چہ یہی عدالت مختلف نوعیت کے بعض غیر اہم اور غیر حساس معاملات کی سنوائی کیلئے خود کو ۲۴؍ گھنٹے کے اندر اند ردستیاب رکھتی رہی ہے لیکن دفعہ ۳۷۰؍ ایسے بے حد حساس معاملے جس کا تعلق زائد از ایک کروڑ نفوس کے احساسات، خواہشات اور جذبات کے ساتھ ساتھ ان کے منفرد تاریخی تشخص کے ساتھ ہے کے تعلق سے دائر تقریباً دو درجن درخواستوں کی سنوائی سے حیر ت انگیز طور پر اپنا دامن چھڑاتی رہی جبکہ اس مدت کے دوران سپریم کورٹ کے کئی سربراہان بھی تبدیل ہوتے رہے۔
سپریم کوٹ کی اس عدم سنوائی سے عبارت اپروچ نے جتنے بھی خدشات اور سوالات کو اُبھار ا ہے قطع نظر ان سبھی سوالات کے اب سنوائی کے فیصلے کا مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے خیر مقدم کیاجارہاہے۔ اگر چہ خیر مقدمی کے یہ بیانات مختلف ہیت اور لہجہ کے ہیں لیکن سنوائی کے فیصلے کا خیر مقدم ہی کیا جارہا ہے۔ خیر مقدم کرنے والوں میں حکمران جماعت بی جے پی، نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور غلام نبی آزاد کی جماعت قابل ذکر ہے البتہ کانگریس، سید الطاف بخاری کی اپنی پارٹی اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس نے فی الوقت تک اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ خیر مقدم کرنے یا خاموشی اختیار کرنے کا تعلق پارٹیوں کے اپنے سیاسی اور غیر سیاسی مفادات اور ایجنڈا سے ہی تصور کیاجارہاہے لیکن لوگ اپنی اپنی سمجھ ، فہم وادراک کے حوالہ سے دونوں پہلوئوں پر نظر رکھتے ہیں جبکہ مختلف انداز سے ردعمل بھی ظاہر کرتے ہیں۔
خیر مقدم کرنے والوں میںسے کچھ کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ عوامی خواہشات اور احساسات باالخصوص اُس تاریخی پس منظرجس کے ہوتے اس آئینی تحفظ کو جموں وکشمیر کے عوام کیلئے ملک کے آئین کا حصہ بنایا گیا تھا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور ماضی میں اسی معاملے کے تعلق سے اپنے کچھ تاریخی فیصلوں کی روشنی میں حقیقت پسندانہ اپروچ کے ساتھ درخواستوں پر فیصلہ کرے گی جبکہ کچھ کاکہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ جو بھی فیصلہ کرے گی اس کا احترام کیاجائے گا البتہ کچھ ایک حلقے اس رائے یا خیال کے بھی ہیں کہ عدالتوں نے ماضی قریب میں کئی ایک معاملات پر ’نظریہ ضرورت اور ملکی عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے‘آئین وقانون کو حاشیہ پر رکھ کر بھی فیصلے دیئے ہیں او رکوئی اغلب نہیں کہ اس اہم ترین معاملہ پر بھی ایسا ہی کوئی راستہ اختیار کرلیاجائے۔
بہرحال یہ ساری اٹکلیں ہیں، عدالت عالیہ آئین قانون او رتاریخی تناظرمیں بہتر سمجھ اور فہم رکھتی ہے ، آئینی اور قانون موشگافیوں پر عموماً عدالت کی گہری پکڑ اور وسیع نظر بھی ہوتی ہے اور بہت کم معاملات ایسے ہو گذر ے ہیں جن پر فیصلے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت صادر تو کئے گئے ہوں لیکن ان فیصلوں کو خود قانونی اور آئینی ماہرین اور تجزیہ کار سالہاسال گذرنے کے باوجود بھی تسلیم یا قبول کرنے کیلئے تیار نہیں !
عوامی سطح پر ایسے حساس نوعیت کے معاملات پر صحیح یا مخالفانہ فیصلوں کا انتظار ہی کرسکتے ہیں اور بحیثیت مجموعی عدالت کے روبرو معاملات پر رائے زنی کو جائز اور درست تصور نہیں کیاجاسکتا ہے لیکن ایک سابق بیروکریٹ جو عہدے سے مستعفی ہوکر سیاستدان بنا، سپریم کورٹ میں دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے فیصلے کے خلاف پٹیشن دائر کی لیکن کچھ مہینوں بعد واپس بیروکریٹ بنانے سپریم کورٹ کی طرف سے معاملے کی سنوائی کے اعلان پر رائے زنی یہ کہکر کی کہ گنگا اور جہلم سے بہت سارا پانی سمندر میں جذب ہوچکا ہے اور’میرے جیسے بہت سارے لوگوں کیلئے کالعدم دفعہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘ واقعی حیران کن ہے۔ بحیثیت  بیروکریٹ انہیں اس نوعیت کے حساس اشو پر بیان بازی زیب نہیںدیتی پھر بھی اگر وہ واقعی اس خیا ل کے ہیں تو بیان بازی سے بہتر یہ ہے کہ وہ سپریم کوٹ میں ایک اور پٹیشن داخل کریں اور عدالت عظمیٰ کو قائل کریں کہ کن بُنیادوں پر پہلے مخالفت میں درخواست دائر کی تھی اور اب وہ کون سے عوامل ہیں جو اب ان کے خیالات میں تبدیلی کا موجب بن گئے ہیں۔
جن سیاسی پارٹیوں نے ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے ان میں کانگریس بھی شامل ہے ۔ جس پر کشمیر اور جموں نشین عوامی اور سیاسی حلقے کسی حد تک حیران ہیں اور اس بحث کو لے کر مختلف آرا کو زبان دے رہے ہیں ۔لیکن کانگریس کی یہ خاموشی کسی تشویش یا حیرانی کا موجب نہیں ہے۔ حکمران جماعت بی جے پی کو آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ ختم کرنے کے فیصلے کو لے کر نشانہ بھی بنایاجارہا ہے اور زبردست تنقید بھی کی جارہی ہے۔ اُس جماعت پر یہ الزام بھی لگایا جارہاہے کہ اس نے تما م تر آئینی اور قانونی راستوں کو حاشیہ پر رکھ کر فیصلہ کیا ۔
لیکن بُنیادی طور سے یہ سارا سچ نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ پہلا وزیراعظم جواہر لا ل نہرو تھا جس نے بلند وبانگ دعویٰ بھی کئے، دوستی کا دم بھی بھرا، خود کو کشمیر کے آئینی ضمانتوں اور تحفظات کا داعی کے طور پر بھی پیش کیا لیکن ریا کاری اور مکارانہ طرز سیاست کا راستہ اختیار کرکے آئین کی اس مخصوص دفعہ کو کھوکھلا کرنے کی بھی بُنیاد رکھی اور اپنے اس طرز سیاست اور عہد شکنی کا برملا اظہار پارلیمنٹ میں بھی کیا۔
کشمیر نشین جو سیاسی جماعتیں اور لیڈران دفعہ ۳۷۰؍ کو عوام کے منفرد تشخص اور شناخت قرار دے کر اس کی بحالی کے دعویدار کے طور اب سامنے آرہے ہیں وہ اُ س دور میں خاموش رہے جب نہرو اور بعدمیںآنے والے اُس کے پارٹی اور حکومتی جانشین اس مخٰصوص آئینی تحفظ کو اندر ہی اندر سے ختم کرتے جارہے تھے۔ یہ لوگ کشمیر میںدرحقیقت کانگریس کے ’بی ‘ ٹیم کی حیثیت سے ملازمانہ کردارادا کرتے رہے ہیں اور اُس وقت بھی اقتدار کی مصلحتوں کے پیش نظر خاموش ہی ر ہے جب این ڈی اے سرکار نے آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں اندرونی خودمختاری کا مسودہ ان کی موجودگی میں اور ان کی آنکھوں کے سامنے ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا۔ واجپئی کی کابینہ میںشامل نیشنل کانفرنس کے وزیر اور پارلیمنٹ ارکان نے اس حقارت خیز رویہ پر اُف تک نہ کی۔
پوچھا جاسکتاہے کہ یہ دوچہرے کیوں؟ جموں وکشمیر کا منفرد تشخص اور شناخت کی پیٹ میں چھرا کانگریس نے گھونپا اور اس تاریخی تلخ سچ کے باوجود خود کو جموںوکشمیر کے عوام کی معتبر اور مستند آواز اور ترجمانی کی دعویدار پارٹی اور لیڈر شپ حکومت مخالف کانگریس اتحاد میںشریک ہے۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

عمر کا خواب … جی ہاں صرف خواب!

Next Post

پاکستان کو ہندوستان سے کہیں بھی کھیلنے میں کوئی مسئلہ نہیں: عبدالرزاق

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
ریستوران کھانے کے پیسے نہیں لیتے تھے، عبدالرزاق نے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2009ء کی فتح کی یادیں شیئر کیں

پاکستان کو ہندوستان سے کہیں بھی کھیلنے میں کوئی مسئلہ نہیں: عبدالرزاق

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.