ادویات کے معیار کا تجزیہ کرنے کیلئے ایک جدید ساخت کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کا قیام عمل میں لایاجارہاہے جبکہ موجودہ کچھ لیبارٹریوں کی بھی تجدید کاری کی جارہی ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ جموںوکشمیر میں طبی نگہداشت اور علاج ومعالجہ کا معیار بہتر بنانے کی سمت میں اقدامات کا دائرہ وسیع کردیا جائے تاکہ ادویات کی کوالٹی کے تعلق سے کوئی ابہام باقی نہ رہے۔
حکومتی سطح پر جدید ساخت کی لیبارٹری کے قیام کا فیصلہ ایک مستحسن قدم ہے، دیر سے ہی سہی لیکن اس کی ضرورت عرصہ سے شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ وزارت صحت کا کہنا ہے کہ لیبارٹری کے قیام کی سمت میں کافی حد تک پیش رفت حاصل کی گئی ہے جبکہ فی الوقت مشنری کی تنصیب کا کام بھی شدومد سے جاری ہے۔
لیکن اس سمت میں کچھ سوال وہ ہیں جن کا نشفی بخش جواب آج تک نہیں دیا جاسکا۔ یہ بات جموں وکشمیر باالخصوص کشمیر خطے کے حوالہ سے زبان زد عام ہے کہ یہاں دونمبر کی ادویات کا حد سے زیادہ چلن ہے، اس تعلق سے بہت سارے قصے کہانیاں ، معاملات چرچے میں ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ملک کی کئی ایک ادویہ ساز کمپنیوں نے ادویات کی تیاری کے تعلق سے دوہرے معیارات اور طریقہ کار اور مارکیٹنگ قائم کررکھے ہیں۔ دوا کا نام برقرار، بیچ نمبر بھی ایک، قیمت کے تعلق سے ایم آر پی بھی یکساں لیکن کشمیر کے لئے پیکنگ علیحدہ ۔درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، معاملات کی گنتی اب باقی نہیں رہی، خود اس ٹریڈ سے وابستہ کاروباریوں کا اعتراف ہے کہ کشمیر میں دونمبر کی غیر موثر ادویات کا چلن اور کھپت عام ہے، اُس چلن اور کھپت میں مخصوص خصلت اور ذہنیت و کردار کے حامل ڈاکٹروں کے ایک مخصوص قبیلے کا اہم ترین کردار ہے، جو دوا ساز کمپنیوں کے ایجنٹوںکی وساطت سے قیمتی تحفے تحائف نقد نذرانے اور سامان آرائش وصول کرکے ان غیر معیاری ادویات کو تجویز کرکے اپنی اخلاقی پستی کا بازار سجائے بیٹھے ہیں۔
یہ منظرنامہ آج کی تاریخ کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ اب کئی دہائیوں پر محیط ہے لیکن المیہ کہیے یا بدقسمتی کہ ہماری کوئی سرکاری ایجنسی بشمول ڈرگ کنٹرول اتھارٹی اس لعنت جو وبائی صورت اختیار کرچکی ہے کو کنٹرول نہیں کرسکی، اس ناکامی کی کئی ایک وجوہات ہیں، ایک ممکنہ وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ بازار کی چیکنگ کرنے والوں کے ذاتی مفادات ہیں، عدم کارروائی مفادات کے ہی اس ٹکرائو کا نتیجہ ہے۔ دوسری اہم ترین وجہ یہ بتائی جاتی رہی کہ یہاں ادویات کی موثر، جامع اور وقت پر ٹیسٹنگ کا کوئی قابل اعتبار سہولیت دستیاب نہیں۔تیسری وجہ ادویات کے سٹاک، سپلائی اور کاروبار سے وابستہ لوگوں کی اکثریت دیانت داری اور خلوص کے ساتھ کاروبار میں یقین نہیں رکھتی۔ وہ بے محنت کی دولت کے انبار کی چاہت میں اپنا نفسیاتی، ذہنی اور اخلاقی توازن تک کھو بیٹھے ہیں۔
سرکاری سطح پر ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی سپلائی کیلئے ادویات کی خریداری کا ایک سنسنی خیز ملٹی کروڑ سکینڈل کچھ سال قبل جموں وکشمیرمیں بے نقاب ہوا تھا جس میں ادویات کی خریداری کیلئے مقرر کمیٹی کے کچھ ارکان ملوث پائے گئے۔ وقت کے وزیر صحت کی طرف بھی انگلیاں اُٹھائی جاتی رہی لیکن وقت کے حکمرانوں نے اپنے ساتھی کی پردہ پوشی کی اور اس کے خلاف کسی بھی کارروائی کو ہونے نہیں دیاگیا۔ آج کی تاریخ میں اُس وقت کا وزیر صحت حکمران جماعت میں شامل ایک سینئر لیڈر کے لقب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
قریب سے دیکھاجائے توا س مخصوص حمام کاکوئی ایک ننگا نہیں بلکہ کرداروں کی اکثریت ننگی ہے اور جموںوکشمیر کی زائد از ایک کروڑ کی آبادی کی مجرم ہے۔ یہ انہی غیر موثر ، غیر معیاری اور ملاوٹ آمیز ادویات کی کھپت اور استعمال کا راست نتیجہ ہے کہ کشمیر کی آبادی کا تقریباً ۹۰؍فیصد کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہے اور بقول کسے جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا ہی گیا، کشمیر کے شہروں ، قصبہ جات اور دیہی علاقوںمیں ہردس دکانوں کے بعد ایک دوائی کی دکان اس مخصوص وبا کی خود داستان اور اشتہار کی صورت میں ایک ناقابل تردید ثبوت ہے کہ کشمیر میں یہ دونمبر کا کاروبار ہر طلوع سحر کے ساتھ پھلتا اور پھولتا جارہا ہے۔
ہم اصولاً کسی کاروبار کے خلاف نہیں کیونکہ ہر شہری کو یہ حق ہے اور آزادی بھی کہ وہ اپنی پسند داور سہولیت کا کاروبار کرے اور اپنی روزی روٹی کا بندوبست یقینی بنائے، لیکن کاروبار کے لئے بھی کچھ اخلاقی اصول، کچھ معیارات اور کچھ لوازمات لازمی ہیں اور انہیں ملحوظ خاطر رکھے بغیر کوئی بھی کاروبار مجرمانہ سرگرمیوں کے اصطلاح میں تصور کیاجاتاہے۔
اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے کہ خود ہمارے ملک میں کچھ ایسی ادویات ساز کمپنیاں موجود ہیں اور نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر قابل اعتبار اور شہرت کی حامل تصور کی جارہی ہے ۔ ان کمپنیوں کی ادویات مارکیٹ میں دستیاب ہے لیکن کشمیرمیں بہت کم۔اس کے برعکس ان کمپنیوں کی تیار کردہ ادویات کی کشمیرمیں بہتات ہے جو کمپنیاں غیر موثر اور غیر معیاری ادویات سازی کے حوالہ سے نظروںمیںآتی رہی ہیں، ان میں وہ کچھ کمپنیاں بھی ہیں جن کی تیار کردہ ادویات کے استعمال کے نتیجہ میں کچھ ممالک میںاموات باالخصوص بچوں کی ہلاکتوں کے سینکڑوں معاملات اب تک سامنے آتے رہے ہیں۔
اور بھی کئی ایک معاملات ہیں جن کا احاطہ کرنے کیلئے وقت بھی مطلوب ہے اور جگہ بھی، لیکن طوالت کے پیش نظر اسی بات پر اکتفا کیاجاسکتا ہے کہ حکومتی سطح پر جدید ساخت کی لیبارٹری قائم کرنے کا اقدام نہ صرف وقت کی اہم ترین ضرورت ہے بلکہ صحت عامہ اور طبی نگہداشت کے تعلق سے ایک مستحسن قدم بھی ہے۔ لیکن اس نئی قائم ہونے جارہی لیبارٹری کو صرف سرکاری ہسپتالوں کیلئے ادویات کی خریداری کے حوالہ سے تجزیہ تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ بازاروں میں جتنی بھی ہزاروں قسم کی مختلف کمپنیوں کی ادویات دستیاب ہیں ان کی ٹیسٹنگ کو بھی یقینی بنایاجانا چاہئے۔
ہم لوگوں کی صحت سلامتی اور طبی نگہداشت کے ضمن میں یہ مطالبہ کرتے کہ صرف ملک کی چند بااعتبار اور قابل اعتماد دوا ساز اداروں کی ادویات کی کشمیر اور جموں کے بازاروں میںکھپت اور دستیابی کو مخصوص کردیا جائے لیکن کاروباری مفادات کے تناظرمیں کسی بھی حکومت کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ البتہ کشمیر میں صحت عامہ کے تعلق سے جو منظرنامہ دستیاب ہے، وہ تکلیف دہ بھی ہے اور لٹیرانہ عمل دخل اور لوگوں کی مجبوریوں کا ناجائز استحصال سے بھی عبارت ہے لہٰذا لوگوں کا یہ مطالبہ واجبی بھی ہے اور ہر اعتبار سے معقول بھی۔