سرینگر//
یوں تو وسطی کشمیر کا ضلع بڈگام زیادہ تعداد میں اینٹ بٹھے موجود ہونے کے باعث ہی جانا جاتا ہے لیکن گذشتہ کئی برسوں سے اس ضلع کے اطراف و اکناف میں بھی مختلف قسم کے پھلوں خاص طور پر سیب کے باغات لگانے کا رجحان بھی کافی بڑھ رہا ہے ۔
ضلع کے مختلف علاقوں میں اینٹ بٹھوں کے بجائے وسیع و عریض اراضی پر پھیلے سیب کے باغات دکھائی دے رہے ہیں اور کاشتکار ہر سال مزید اراضی پر باغات لگا رہے ہیں۔
کاشتکار دھان کی فصل پر بھی سیب کے باغ لگانے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ یہ کاشتکاری کا انتہائی منافع بخش شعبہ ثابت ہو رہا ہے جس سے لوگوں کی اقتصادی حالت بہت مستحکم ہو رہی ہے ۔
بیشتر باغ مالکان اب روایتی باغبانی کے بجائے ہائی ڈنسٹی والے سیب کے پودے لگا رہے ہیں جن کے لگانے پر متعلقہ محکمہ کافی مالی معاونت فراہم کرتا ہے ۔
یہ ہائی ڈنسٹی والے پودے بیرون ممالک جیسے ہالینڈ اور اٹلی سے منگوائے جاتے ہیں۔
ضلع بڈگام کے کرمشور علاقے میں عبدالغنی نامی ایک کاشتکار نے بیس کنال اراضی پر ہائی ڈنسٹی والا سیب باغ لگا یا ہے ۔انہوں نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ گرچہ اس قسم کے میوہ باغ کی دیکھ ریکھ کیلئے محنت بھی زیادہ لگتی ہے اور پیسہ بھی لیکن یہ کافی منافع بخش بھی ہے ۔
غنی کا کہنا تھا’’میں نے۲۰۱۹میں پہلے بارہ کنال اراضی پر ہائی ڈنسٹی پودوں کا سیب باغ لگا یا اور پھر اگلے سال مزید آٹھ کنال اراضی پر لگا دیا‘‘۔
کاشتکار نے کہا کہ ایک کنال زمین پر۱۶۰سے ۱۷۰درخت لگ جاتے ہیں جو دو برسوں کے بعد ہی فصل دینے لگتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ روایتی سیب کے درخت دس برس بعد فصل دیتے ہیں۔
غنی کا کہنا تھا کہ متعلقہ محکمہ یہ باغ لگانے میں نوے فیصد سبسڈی فراہم کرتا ہے جس سے کا شتکار کو کافی مدد ملتی ہے ۔
کاشتکار نے کہا کہ متعلقہ محکمہ صرف مالی مدد ہی فراہم نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے افسران وقت وقت پر باغوں کا معائنہ بھی کرتے ہیں اور مفید مشورے بھی دیتے ہیں جس سے ماغ مالکان کسی بھی قسم کے نقصان سے بچ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ درخت خریدنے سے لے کر پائپ لائن بچھانے اور درختوں کے اوپر جال لگانے پر بھی حکومت مدد کرتی ہے ۔
غنی کا کہنا تھا کہ اگر کسی پاس کے ایک ہی کنال اراضی ہے تو وہ بھی اس پر ہائی ڈنسٹی کا باغ لگا کر اچھی کمائی کر سکتا ہے ۔
کاشتکار نے کہا کہ جس کے پاس اراضی ہے وہ یہ باغ لگا کر دوسروں کو روز گار فراہم کر سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اس شعبے کی طرف توجہ دیں اور حکومت ان کی مدد کرنے کے لئے تیار ہے ۔
پارس آباد سے تعلق رکھنے والے اعجاز احمد نامی ایک باغ مالک نے کہا کہ بیس کنال راضی پر میں نے پہلے ہی ایک سیب کا باغ لگا یا ہے لیکن وہ روایتی باغ ہے ۔انہوں نے کہا کہ امسال میں نے مزید بیس کنال اراضی پر ہائی ڈنسٹی باغ لگایا۔
احمد کا کہنا تھا کہ دھان کی فصل اگنے سے زیادہ سے زیادہ دو وقت کے کھانے کی سبیل ہوتی ہے اور اس پر خرچہ بھی کافی آتا ہے لہذا لوگ اب باغ لگانے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ وادی کے مختلف اضلاع میں ہزاروں کنال اراضی پر ہائی ڈنسٹی میوہ باغ لگائے گئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔