تحریر:ہارون رشید شاہ
واقعی میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو عملی طور پر ماہ صیام کو لوٹنے والا مہینہ سمجھ کر اس میں لوگوں کو لوٹتے ہیں اور…اور ہم دکانداروں ‘ناجائز منافع خوری کرنے والے دکانداروں کی بات نہیں کررہے ہیں کہ … کہ ان کے بارے میں ہم پہلے ہی بات کر چکے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں ‘ جنہیں اگر لٹیرا کہا جائے تو … تو یہ ان کی شان میں کوئی گستاخی نہیںہو گی ۔یہ وہ لٹیرے ہیں جو جانتے ہیں کہ اس ماہ میں لوگ دل کھول کر صدقات اور خیرات کرتے ہیں… لوگوں کو جب بھی کسی کی مدد کرنے کا موقع ملتا ہے وہ اس سے پیچھے نہیں رہتے ہیں … اور اسی بات کا یہ لٹیرے فائدہ اٹھاتے ہیں … ان لٹیروں میں ملک کشمیر کے واسی بھی شامل ہیں اور بیرون وادی سے بھی لوگ یہاں آتے ہیں اور اس گنگا میں ہاتھ دھو ڈالتے ہیں ۔ کوئی بیمار ہونے کا بہانہ بنا کر لوگوں سے روپے پیسے بٹورتا ہے تو کوئی کسی زیر تعمیر مسجد کیلئے چندہ جمع کرتا ہے … کوئی تیموں کی کفالت کے نام پر صدقات و خیرات میں اپنا حصہ حاصل کر ہی لیتا ہے تو… تو کوئی بیٹیوں کی شادی کرانے کے نام پر اس لوٹ میں شامل ہو جاتا ہے … اس ماہ میں صدقات و خیرات کرنے والے لوگ اپنی محنت کی کمائی میں سے کچھ ایک حصہ اللہ میاں کی راہ میں صرف کرنے کیلئے رکھتے ہیں… لیکن ملک کشمیر میں ان لٹیروں نے ایسا نیٹ ورک قائم کررکھا ہے کہ کوئی وثوق سے کہہ نہیں سکتا ہے اور… اور بالکل بھی نہیں کہہ سکتا ہے کہ کیا یہ خیرات مستحق لوگوں تک پہنچ جاتی ہے یا نہیں ۔ ہم میں سے ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے جن کاجاننا اور ماننا ہے کہ ثواب کا دار مدار نیت پر ہے ‘اس لئے دینے والے کی نیت اگر اللہ میاں کے راستے میں صرف کرنے کی ہے تو… تو اسے وہ ثواب مل ہی جائیگا چاہے اس کی رقم‘ اس کے پیسے کوئی غیر مستحق شخص ہی کیوں نہ اڑا لے… ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن…لیکن صاحب کیا بہ حیثیت ایک قوم یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم کوئی ایسا طریقہ ٔ کار وضع کریں کہ لوگوں کی محنت کی کمائی مستحق لوگوں تک پہنچ جائے ‘ ان لوگوں تک جنہیں اس کی واقعی میں ضرورت ہو ‘ جو واقعی میں محتاج ہوں ‘ جنہوں نے اسے ایک دھندہ نہیں بنایا ہو … جو لوگوں کو لوٹتے نہیں ہیں…اور بالکل بھی نہیں ہیں ۔ ہے نا؟