خرطوم//
امریکی محکمہ دفاع نے جمعرات کو اعلان کیا کہ سوڈانی دارالحکومت میں فوج اور منحرف سریع الحرکت فورسز کے درمیان شدید لڑائی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے پیش نظر خرطوم میں امریکی سفارتی عملے کے انخلاء کے لیے فوج روانہ کی جا رہی ہے۔
پینٹاگان نے ایک بیان میں کہا کہ”ہم سفارت خانے میں موجود امریکی ملازمین کی حفاظت کو یقینی بنانے اور ضرورت پڑنے پر سوڈان سے ان کی ممکنہ روانگی کو ممکن بنانے کے لیےخطے میں اضافی افواج بھیجنے پر کام کررہے ہیں۔
بیان میں اس کمک میں موجود فوجیوں کی تعداد کی وضاحت نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ وہ کس ملک میں تعینات ہوں گے۔ تاہم بعد میں ایک سینیر امریکی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ اضافی امریکی فوجی اہلکار جبوتی میں تعینات ہوں گے، جو ہارن آف افریقہ کا چھوٹا مگر مستحکم ملک ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے سوڈان میں جاری تشدد کی مذمت کرتے ہوئے دونوں متحارب فریقوں سے فوری طور پر دشمنی بند کرنے کا مطالبہ کیا، انہوں نے عوامی امنگوں کے مطابق سوڈان میں انتقال اقتدار کی پرامن جمہوری منتقلی پر زور دیا۔
خرطوم گذشتہ ایک ہفتے سے فوج کے دو دھڑوں کے درمیان میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ فوج کے ایک گروپ کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتاح البرہان کر رہے ہیں جب کہ دوسری طرف محمد حمدان دقلو کی قیادت میں سریع الحرکت فورسز لڑرہی ہیں۔ خون ریزی جھڑپوں اور لڑائی کے دوران اب تک تین سو سے زاید عام شہری مارے جا چکےہیں۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے عید الفطر کے موقع پر سوڈان میں "کم از کم تین دن” کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
جمعرات کی شام سوڈانی نیشنل فورسز نے اعلان کیا کہ اس نے "عید کے دنوں میں لڑائی روکنے کے لیے فریقین سے ابتدائی منظوری حاصل کر لی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایک "جامع اقدام پیش کریں گی جس کا مقصد ایک جامع جنگ بندی اور بات چیت کے ذریعے اختلافات کو حل کرنے کے لیے” ہے۔
خرطوم میں عیدالفطر کے موقع پر جمعرات کو فائرنگ اور دھماکے جاری رہے، جب کہ فوج کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتاح البرہان نے اپنے سابق اتحادی حمدان دقلو کے ساتھ "سیاست کے بارے میں کسی بھی قسم کی بات چیت” سے انکار کر دیا۔