رواں مالی سال کے لئے جو بجٹ تجویز کی گئی ہے اُس میں ۲۱۰۰؍ کروڑ روپے شعبہ صحت عامہ کیلئے مخصوص رکھے گئے ہیں۔بظاہر مختص رقم معمولی یا کم نہیں ہے لیکن اتنے حجم کی بھی نہیں کہ یہ شعبہ صحت کے حوالہ سے درپیش معاملات، کمیوں اور خامیوں کا ازالہ کرنے یا ختم کرنے میں ممدثابت ہوسکیں۔
جموںوکشمیر باالخصوص وادی کشمیر کے تعلق سے صحت عامہ کے حوالہ سے وقفے وقفے سے جو رپورٹیں منظر عام پر آرہی ہیں اگر وہ حقیقی ہیں اور ان رپورٹوں میں ظاہر اعداد وشمارات درست ہیں تو وہ باعث تشویش ہیں اور اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ ہماری تمام تر توجہ ، توانائی اور وسائل شعبہ صحت پر مرتکز رہنی چاہئے لیکن محدود وسائل کے ہوتے یہ ممکن نہیں۔
ایک تازہ ترین رپورٹ میںدعویٰ کیاگیا ہے کہ کشمیرمیں بلڈ پریشر زیابطیس(شوگر) کینسراور دیگر چند امراض میں نصف سے زیادہ آبادی مبتلا ہے۔ جبکہ نوجوان پود ڈپریشن کے سایہ میںجی رہی ہے اور یہی ڈپریشن بڑھتے بڑھتے اس نسل کو اندر ہی اندر سے کھائی جارہی ہے جبکہ نوجوانوں میں بڑھتی خود کشی کے رجحانات کیلئے بھی اسی کو براہ راست ذمہ دار خیال کیاجارہاہے۔
ان امراض سے بحیثیت مجموعی نمٹنے کیلئے ایک جامع مگر ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن اعلیٰ سطح سے لے کر نچلی سطح تک شعبہ صحت کے حوالہ سے قدم قدم پر فقدان ہی فقدان دکھائی دے رہے ہیں ۔ جن امراض کی رپورٹوں میں نشاندہی کی جارہی ہے وہ آج کی پیداوار نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کا موثر علاج کرنے کی سمت میں نہ حکمت عملی کبھی نظرآئی اور نہ ہی کسی حوالہ سے سنجیدہ طرزعمل۔ بس کا م چلائوکا سا طریقہ کار روزمرہ کا معمول بنایاگیاہے۔
ایسا بھی نہیں کہ کشمیرمیں قابل، باصلاحیت، ذہین ڈاکٹروں اور ماہرین طب دستیاب نہیں بلکہ فخر سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ بہتات میںدستیاب ہیں لیکن ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں، وہ ادویات توتجویز کررہے ہیں اور اپنی جگہ یہ فرض کررہے ہیں کہ اس کی تشخیص سے بیمار صحت یاب ہوگا لیکن بیمار شفایاب نہیںہورہاہے بلکہ اکثر وبیشتر صورتوں میں دیکھا جارہاہے کہ مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی۔اس کی وجہ کیا ہے ؟ وجوہات کئی ایک ہیں، جن کی وقتاً فوقتاً نشاندہی بھی کی جاتی رہی ہے ان وجوہات میں غیر موثر، نقلی اور ڈپلی کیٹ ادویات کی کشمیرکے تقریباً ۹۰ فیصد بازاروں میں آسانی سے دستیابی، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس دستیابی کی جانکاری اور بھر پور علمیت کے باوجود ان غیر موثر اور نقلی ادویات کی خرید اور فروخت اور استعمال پرکوئی روک نہیں اور نہ ہی تجزیاتی سہولیات لیبارٹریز کی صورت میںدستیاب ہیں۔ اس تعلق سے یہ شدت سے محسوس کیاجارہاہے کہ محکمہ صحت عامہ کی ایک اہم اکائی شعبہ ڈرگ کنٹرول اب تک بحیثیت مجموعی نہ صرف ناکام رہاہے بلکہ اس کی کارکردگی اور کام کامیعار حد درجہ انحطاط کا شکار ہے۔
کشمیرکے بازاروں میں غیر معیاری اور نقلی ادویات کی کھپت کو یقینی بنانے کی سمت میں جہاں مخصوص فکر اور ذہنیت کے حامل ڈاکٹروں کا ایک مخصوص قبیلہ براہ راست ملوث ہے وہیں ادویات کے کاروبار سے وابستہ بعض سٹاکسٹ، دوافروش اور ایجنٹ بھی اس سمت میں اپنا رول اداکررہے ہیں۔
مختلف امراض میں مبتلا افراد کی بڑھتی تعداد کے پیچھے اور بھی کئی وجوہات ہیں جن میں ریڈی میڈ خوراک کھانے پینے کی مختلف اشیاء، جنک فوڈ، صحت وصفائی کاخیال رکھے بغیر ان اشیاء کی بازاروں ،ہوٹلوں ، ریستورانوں اور فیکٹریوں میں تیاری بھی خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ کھانے پینے کی غلط عادتیں اور ترجیحات بھی ان امراض کے پھیلنے میں اہم کردار اداکررہی ہیں۔
اس مخصوص پس منظرمیں حکومت کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ چن چن کر بازار میںدستیاب غلط یا صحیح اشیاء کا تعین کرکے پابندی عائد کردے، احتیاط لوگوں کی اپنی ذمہ داری ہے جبکہ شعبہ صحت عامہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مارکیٹ میںدستیاب ادویات کی صحت پر کڑی نگاہ رکھنے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ مارکیٹ میںغیر معیاری اور غیر موثر ادویات دستیاب نہ رہے۔ قانون اور ضوابط موجود ہے جن کے تحت اس ناجائز بلکہ ہر اعتبار سے مہلک کاروبار میںملوث افراد… دوا فروشوں، ادویات تجویز کرنے والے ڈاکٹروں اور سٹاکسٹوں کے خلاف موثر کارروائی کو بھی یقینی بنایاجاسکے۔
نظر صرف گوشت اور پولٹری کی قیمتوں کے آئے روز تعین اور ان کی خلاف ورزی کرنے کے مرتکب قصائیوں اور مرغ فروشوں کی پکڑ دھکڑ اور دکانوں کو سربہ مہر کرنے تک ہی محدود ہے اور نہ محدود رہنی چاہئے ، لوگ ہفتہ بھر گوشت اور پولٹری کا استعمال نہ کرے تو کچھ نقصان نہیں ہوگا بلکہ صحت کیلئے یہ اچھا اور مفید ہے لیکن کسی امراض میںمبتلا مریض ایک وقت کی دوائی لینے سے محروم رہے تو اس کیلئے وہ وقت کسی قیامت سے کم ثابت نہیںہوتا۔
کم وبیش ہر چھوٹے بڑے ہسپتال میں بیماروں کا اژدھام ، پرائیوٹ کلنکوں اور پرائیوٹ ہسپتالوں اور نرسنگ ہیوموں میںمریضوں کی بڑھتی بھیڑ اور پھر پرائیو ٹ ڈائیگنوسٹک سینٹروں میںمختلف ٹیسٹ کرانے والے بیماروں کی لمبی قطاریں کیا یہ واضح نہیں ہورہاہے کہ جیسے نصف سے زیادہ کشمیرکی آبادی بیمار ہے اور یہ سارے لوگ روزانہ کروڑوں روپے مالیت کی ادویات کی خریداری اور استعمال کے باوجود صحت یاب نہیںہورہے ہیں۔
مختلف امراض سے نمٹنے اور ان میں اضافہ کی وجوہات پر غور کرنے کیلئے آئے روز متعلقہ اداروں کی جانب سے سمینار، ورکشاپ او رکانفرنسیں منعقد ہوتی رہتی ہیں لیکن آج تک کسی کانفرنس کے حوالہ سے یہ سفارش حکومت کو پیش کرنے کے تعلق سے نہیںسنی گئی کہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے یہ یہ طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرح سے یہ بھی شوبزنس کا سا روپ اختیار کرتا نظرآرہاہے۔ جبکہ کشمیر اس نوعیت کی شو بزنس کا اب مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ منظرعام پر آرہے مختلف رپورٹ خطرے کی گھنٹی بجارہے ہیں، گھنٹیوں کی یہ کان پھاڑ آوازیں سننے اورا ن کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔