کشمیر میں پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی من مانیوں اور استحصالانہ طرزعمل کا نہ والدین اور نہ ہی صوبائی انتظامیہ کے پاس کوئی توڑہے اور نہ حل۔ تعلیمی اداروں کی طرف سے مختلف نوعیت کی من مانیوں کے خلاف عموماً والدین سراپا احتجاج نظرآرہے ہیںاور حکومت کے متعلقہ ادارے باالخصوص صوبائی انتظامیہ اور ناظم تعلیمات اور کبھی کبھار اعلیٰ حکومتی سطح پر جائز ہ کمیٹیوں کی تشکیل کے باوجود نہ من مانیاں ختم ہورہی ہے اور نہ ہی پرائیوٹ تعلیمی ادارے اپنی لن ترانیوں سے باز آرہے ہیں۔
اس من مانی اور استحصالانہ طرزعمل کی کئی وجوہات ہیں جن میں خاص طور سے سابق ادوار میں برسراقتدار مختلف حکومتوں کا معاونتی کردار، آشیرواد اور لوٹ میں حصہ داری کا عنصر قابل ذکر ہے۔ کب فیس اور دیگر چارجز کا تعین کرنے کیلئے حکومتی سطح پر فیس جائزہ کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں نہیں لائی جاتی رہی، کب تعلیمی اداروں کو سرکار قوائد وضوابط کی پابندی کے لئے احکامات صادر نہیں کئے جاتے رہے، کب فیس اور بس کرایوں کی وصولی کے حوالہ سے طریقہ کار کا سرکاری سطح پر فیس کمیٹیوں کی تجاویز اور سفارشات کی روشنی میں احکامات صادرنہیں ہوتے رہے، کب ان پرائیوٹ تعلیمی اداروں کو حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے مختلف نوعیت کی مراعات بشمول لمبی لیز پر کروڑوں مالیت کی اراضیوں کی الاٹمنٹ اور سرکاری گرانٹ کی روشنی میں سماج کے پسماندہ اور بچھڑے طبقوں سے وابستہ بچوں کیلئے ۲۰؍ فیصد نشستیں کلاسوں میں مختص کرنے کا پابند نہیں بنایا گیا لیکن خود ناظم تعلیمات اور پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے ارب پتی منتظمین ہی بتادیں کہ کب انہوںنے ان سارے یا ان میں سے کچھ ایک حکومتی احکامات اور ہدایات کا احترام کرکے خود کو ان کی عمل آوری کا پابند بنایا؟
جواب یقیناً نفی میں ہے۔ نصابی کتب کی خریداری کے حوالہ سے بات کی جائے تو اس ضمن میں سرکاری احکامات کی دھجیاں فضائے آسمانی میں اڑادی جاتی ہیں اور من مانیوں کا راستہ اختیار کرکے اپنے من پسند ناشران اور منضفین کی کتابوں کا بوجھ بچوں پر لادا جاتا ہے۔ اس تعلق سے ابھی چند ہی روز قبل کچھ سنسنی خیز پہلو بھی سامنے آئے ہیں لیکن ماضی کی طرح اب کی بار بھی خلاف ورزی کے مرتکب تعلیمی اداروں کے منتظمین کو نامعلوم اور اندھی مصلحتوں کے پیش نظر باعزت بری کردیا جائیگا۔ نصابی کتب کوا سکولی احاطوں میں قائم اپنی دکانوں سے خریدنے پر اعتراض کے بعد سکولوں نے باہر مختلف علاقوں میں دکانیں کھول لی ہیں اور ان دکانوں کو مختلف ناموں کے تحت رجسٹر کراکے اپنی دکانداری کو طوالت عطاکردی ہے۔ اس حوالہ سے نصابی کتب کی خریداری کا معاملہ ہویا مقررہ وردی یا دوسرے اسٹیشنری مواد سب کچھ ایک مخصوص چھت کے نیچے دستیاب ہے جس چھت کو سایہ خود سکولی منتظمین نے مبینہ طور سے فراہم کررکھاہے۔
کشمیر کے مختلف علاقوں میں پرائیوٹ سیکٹر میںسکول قائم کرنے کیلئے حکومت نے اربوں روپے مالیت کی اراضیاں معمولی لیز فیس پرالاٹ کررکھی ہیں۔ بُنیادی طور سے ہم اس سہولیت کے مخالف نہیں اور نہ ہی معترض ہیں البتہ اس بہت بڑی سہولیت کے عوض والدین کو کچھ راحت میسر ہونی چاہئے تھی جونہیں ہے۔ کمسن بچوں کاداخلہ اس وقت تک نہیں دیا جاتا جب تک نہ لاکھوںروپے کا ڈونیشن والدین سے پیشگی اور کلاس شروع ہونے سے کئی مہینے پہلے ٹیوشن فیس اور بس کرایہ (جواس مدت کے دوران استعمال ہی نہیں ہوتی) سمیت وصول کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ سالانہ ادائیگی کے نام پر بھی موٹی رقومات کی ادائیگی کو لازمی بنایاگیا ہے اور عدم ادائیگی کی صورت میں نہ نتائج کا ا علان کیا جاتا ہے اور نہ ہی الگے کلاسوں میں قدم رکھنے کی اجازت!
کیا یہ بدترین لوٹ اور ناجائز استحصال نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ صوبائی انتظامیہ کا ہر فرد چاہئے اعلیٰ ناظم ہے یا ادنیٰ پوسٹ پر تعینات اہلکار اس لوٹ کی حقیقت سے آشنا ہے محکمہ تعلیم بھی بے خبرنہیںہے اور سیکریٹریٹ میں واقع وزارت تعلیم بھی لاعلم نہیں لیکن اس علمیت کے باوجود پرائیوٹ سکولوں کی لوٹ اور من مانیوں پر آنکھ چرانے کی روایت کو تحفظ فراہم کیاجارہاہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے جس کو نظرانداز کرنا ان نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی ہوگی۔ تصویر کے اُس رُخ کاتعلق درس وتدریس کے تعلق سے نجی تعلیمی اداروں کے اب تک کے رول اور کردار سے ہے۔ انہوںنے تعلیمی میدان میں ایک زبردست تبدیلی لائی اور تعلیم کے تعلق سے ایک نئے مگر مثبت کلچر کی داغ بیل ڈالدی۔ان اداروں کے مقابلہ آرائی کے امتحانات کے نتائج اگر سو فیصد نہیں لیکن ۹۵؍ فیصد سے بھی آج تک کم نہیں رہے۔ ان اداروں میں زیر تعلیم بچوں کی تعلیمی اور آئی کیو کے حوالہ سے صلاحیت سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں سے کہیں زیادہ اور بہتر ہے ۔ جبکہ ڈسپلن کے بھی بچے پابند ہیں۔
اس تعلق سے دیکھاجائے تو نجی سیکٹر میں تعلیمی اداروں نے کشمیر میں تعلیم کو ایک نئی جہت اور سمت عطاکی ہے اور کمسن پود کے اندر حصول تعلیم اور ماورائے تعلیم جانکاری کے مد میںجذبہ کو شدت عطا کی ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ سچ ہے کہ چند ایک اسکولوں کے بارے میں وقفے وقفے سے جوخبریں اور اطلاعات سکولوں کی چار دیواروں سے باہر آتی رہتی ہیں وہ پریشان کن بھی ہیں اور باعث تشویش بھی۔ اس تعلق سے کچھ سکولوں کے منتظمین اور ذمہ داروں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ان کے سکولوں کے اندر کچھ غلط ذہن کے بچے زیر تعلیم ہیں جن کی عادتیں بگڑی ہوئی ہیں لیکن اس تعلق سے منتظمین عموماً خاموش رہتے ہیں۔یہ غیر ذمہ دارانہ فعل ہے جو سماج کیلئے بعد میں آنیو الے وقتوں میں سم قاتل بھی ثابت ہوسکتاہے جبکہ وہ بچے جن کی عادتیں بگڑی نہیں ہیں بھی ان بگڑوں کے اثرورسوخ میں آکر بگڑ سکتے ہیں اور والدین کیلئے نت نئی پریشانیوں کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔