جموں وکشمیر کی ہر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹی اس بات پر متفق ہے کہ یوٹی کا درجہ ختم کرکے ریاستی درجہ بحال کیاجائے اور اسمبلی کو وجود بخشنے کیلئے فوری طور سے الیکشن کرائیں جائیں۔ آخری الیکشن ۲۰۱۴ء میںسیلاب کی قہر بانیوں اور وسیع پیمانے پر ہوئی تباہی اور بربادی کے تناظرمیں ہوئے تھے تب سے اب تک زمینی سطح پر بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوئی، خود حکومت مسلسل اس بات کا اعتراف کررہی ہے کہ جموں وکشمیر میں دہشت گردانہ واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے اور صورتحال بحیثیت مجموعی پرا من ہے یا قیام امن کی جانب سبک رفتاری کے ساتھ پیش قدمی جاری ہے ۔
جموں ہویا کشمیر ہرسیاسی پارٹی کی مانگ یہی ہے کہ الیکشن فوری طور سے منعقد ہوں تاکہ عوام کے مسائل کا باوقار حل تلاش کیاجاسکے اور سب سے بڑھ کر جموںوکشمیر کے عوام کو جمہوریت کا ثمرہ حاصل ہوسکے۔ اگر چہ اس حوالہ سے مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں مختلف آرائیں اور نظریات کوسامنے لارہی ہیں اور اپنے طور سے بھاری اکثریت میں آکر اگلی حکومت اپنے بل پر تشکیل دیئے جانے کے بھی دعویٰ کئے جارہے ہیں۔ ان کے یہ دعویٰ کس حد تک زمینی حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں وہ تو اس وقت پتہ چل جائے گا جب الیکشن واقعی میں ہوں گے اور نتائج سامنے آجائیں گے۔ اُس وقت تک محض اٹکلیوں سے ہی کام چلالیاجائیگا جس کا مقصد بُنیادی طور سے یہی ہے کہ عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی جاتی رہے۔
الیکشن کے انعقاد کو یقین بنانے اور الیکشن کمیشن کو اس حوالہ سے حرکت میں لانے کیلئے ابھی چند روز قبل ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں ایک آل پارٹیز وفد الیکشن کمیشن سے ملاقی ہوا اور کمیشن کو میمورنڈم پیش کیاگیا۔ ملاقات کے بعد فاروق عبداللہ کاکہنا تھا کہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی اور یقین دلایا گیا کہ کمیشن بہت جلد اس ضمن میں ضروری اقدامات کی سمت میں پہل کرے گا۔
لیکن اس وفد کی ہیت ترکیبی پر کچھ دوسری پارٹیوں کی طرف سے تنقید بھی کی جارہی ہے اور مخالفت بھی، کچھ کا کہناہے کہ جو اپوزیشن کے نام پر وفد دہلی گیا وہ اصل میں اپوزیشن ہے ہی نہیں جبکہ کچھ ایک کاکہنا ہے کہ دہلی جانے سے قبل فاروق عبداللہ نے ان سے اس معاملے پر نہ بات کی اور نہ اعتماد میں لیا۔ اگر چہ جموں نشین بی جے پی کے ایک سرکردہ لیڈر اور سابق نائب وزیراعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ کے علاوہ کچھ دوسرے بھی ریاستی درجہ کی بحالی اور الیکشن کرائے جانے کے مطالبات دہلی جاکر اُٹھائے جانے کے حوالہ سے متفق ہے لیکن وفد کی ہیت ترکیبی پر اس نے بھی اپنی طرف سے کچھ تحفظات ظاہر کئے ہیں۔
یہ حیلے اور بہانے ہیں، انہی طر زکے ذاتی مفادات سے عبارت انداز فکر اور طرزعمل پر مبنی سیاست نے جموں وکشمیر کو حد سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور فی الوقت بھی یہ نقصان مختلف صورتوں میں زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے عوام کو ہی بھگتنا پڑرہا ہے۔ کشمیر کے تناظرمیں بات کریں تو کہاجاسکتا ہے کہ جو لوگ فاروق عبداللہ کی قیادت میں وفد کی ہیت ترکیبی پر سوالات اُٹھارہے ہیں ، چاہئے اعتراضات کی صورت میں یا محض تنقید برائے تنقید کے جذبات کے تحت، وہ اپنے سیاسی مشن اور ایجنڈا کی روشنی میں فاروق عبداللہ کے سیاسی مخالفین میں خود کو پیش بھی کررہے ہیں اور تصور بھی کرتے ہیں جبکہ اپنی اس مخالفت کا بار بار وہ کھلم کھلا اظہار بھی کرچکے ہیں۔لہٰذا ان کی مخالفت یا تنقید زیادہ اہمیت کی حامل نہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ اگر ہر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹی کا مطالبہ ہے کہ ریاستی درجہ بحال کیا جائے اور الیکشن کا انعقاد کو یقینی بناکر عوام کے جمہوری حقوق بحال کئے جائیں تو پھر اعتراضات اور تنقید کی کون سی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ پھر چاہئے مطالبہ اپنی پارٹی کرے، پیپلز کانفرنس کرے، محبوبہ مفتی کی پارٹی کرے، این سی کرے یا بی جے پی کرے، مدعا تو سب کا ہے اور سب سے اہم یہ کہ اس مخصوص مدعا کا براہ راست تعلق عوام کے جمہوری حقوق اور مفادات سے ہے۔
الیکشن کے ہی تعلق سے پھر کیا یہ حقیقت نہیں کہ خود وزیرداخلہ امت شاہ اور دوسرے مرکزی لیڈر بار بار اعلان کرتے رہے ہیں کہ الیکشن بہت جلد ہوں گے جبکہ ریاستی درجہ کی بحالی موزوں وقت پر ہوگی۔ خود الیکشن کمیشن کے قریبی ذرائع بھی اشارہ کررہے ہیں کہ الیکشن کی سمت میں ابتدائی اقدام اگلے ماہ اپریل سے متوقع ہیں جبکہ الیکشن جو ن… جولائی میں ہوسکتے ہیں ۔ پھر ان اعلانات، اشاروں اور دیگر سرگرمیوں کے تعلق سے کچھ پارٹیوں میں یہ گھبراہٹ کیوں؟کسی نے وفدکی ہیت ترکیبی اور دہلی کی جانب رخت سفر کو فرسٹریشن قراردیا تو کوئی سرے سے ہی معترض ہے ۔ صورتحال نہ کوئی صاف سامنے آتا ہے اور نہ کوئی صاف چھپتا ہے کے مانند ہی محسوس کی جارہی ہے۔
بہرحال اس کے باوجود کہ الیکشن کے تعلق سے تقریباً ہر پارٹی ایک صفحہ پر کھڑی نظرآرہی ہے آثار کچھ کے بارے میں ٹھیک نہیں ہیں۔الیکشن کا انعقاد اور نتائج ابھی دہلی دور است کا ہی معاملہ ہے لیکن جو کچھ محسوس کیاجارہاہے اور جو کچھ نظرآرہا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ ضرور کررہا ہے کہ نتائج معلق اسمبلی کے حوالہ سے ہی سامنے آسکتے ہیں کیونکہ سیاسی نریٹو اب جموں یا کشمیر وادی کے تعلق سے اور تعلق تک محدود نہیں رہے بلکہ ہر تحصیل، ہر ضلع اور ہر خطہ کے حوالہ سے آبادی کے ہر طبقے کا اب اپنا منفرد سیاسی نریٹو ہے ۔ اس پس منظرمیں محسو س تو یہی ہورہا ہے کہ الیکشن کے بعد دو واضح اتحاد اُبھر کر سامنے آسکتے ہیں جو اگلی حکومت کی تشکیل کا دعویٰ پیش کرسکتے ہیں ۔ ا س دوڑ میں سبقت کس کو حاصل رہیگی اپنے وقت پر اس کا پتہ چل جائیگا۔
الیکشن میں کوئی ایک پارٹی اپنے بل پر دو تہائی اکثریت حاصل کرکے اپنے بل پر حکومت تشکیل دے گی غالباً وہ زمانہ لد چکا ہے ۔ ۲۰۰۲ء کے بعد کے الیکشن نتائج جموںوکشمیر میں مخلوط حکومت کے زمانے کی داغ بیل ڈال چکے ہیں اور یہ مخلوط کلچر اب آنیوالے کل کیلئے بھی حقیقت ہے۔