سرینگر//
سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق چین کی ثالثی میں سعودی اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
سعودی عرب کے میڈیا کے مطابق صدر شی جن پنگ کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے حکام کے مابین ۶ سے۰ ۱ مارچ مذاکرات ہوئے تھے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے ’ ’سعودی عرب اور ایران کے درمیان اچھے تعلقات کی بحالی کیلئے چین کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے جواب میں تینوں ممالک اعلان کرتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے‘‘۔
سعودی سرکاری پریس ایجنسی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ’’سعودی عرب، ایران اور چین کی اعلیٰ قیادت کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کی میزبانی چین کرے گا‘‘۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ معاہدے کی رو سے ونوں ممالک دو ماہ کے اندر سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنا اور ممالک کی خودمختاری کا احترام اور ان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت شامل ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان’اچھے ہمسایہ تعلقات‘ کو فروغ دینا ہے اور ان کے اختلافات کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور ایرانی وزرائے خارجہ معاہدے کی شرائط کو فعال بنانے تبادلہ خیال کرنے کے لئے ایک اجلاس منعقد کریں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ۲۰۰۱ کے سکیورٹی تعاون کے معاہدے اور معیشت، سائنس اور کھیلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کیلئے ۱۹۹۸کے معاہدے کو بھی فعال کیا جائے گا۔
گزشتہ سال دسمبر میں شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب نے چینی صدر کو مشرق وسطیٰ بھر کے رہنماؤں کے ساتھ اکٹھا کیا تھا، جس کے بعد سعودی مقامی اور عرب میڈیا میں کافی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں۔
گزشتہ ماہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا دورہ کیا تھا جس نے عرب میڈیا کی خاص توجہ حاصل کی تھی۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاض اور تہران نے اس اقدام پر چینی قیادت کا شکریہ ادا کیا اور عمان اور عراق کی جانب سے مذاکرات کے گزشتہ دور کی میزبانی کی تعریف کی۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے بھی یہ بیان شائع کیا تھا۔
خیال رہے کہ حالیہ برسوں میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان یمن کے معاملے پر تنازع مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کا محور رہا۔ سعودی عرب کا موقف تھا کہ ایران یمن میں حوثی باغیوں کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب ایران اپنی سفارتی تنہائی کے لیے ریاض کی مغربی ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ کی گئی کاوشوں کو ذمے دار قرار دیتا ہے۔
ماہرین کے مطابق دونوں ممالک شام سمیت مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ کا حصہ رہے ہیں۔
سعودی عرب نے ۲۰۱۶ میں ایران کے ساتھ اس وقت سفارتی تعلقات ختم کردیے تھے جب سعودی عرب میں ایک شیعہ عالمِ دین کو سزائے موت دینے پر تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ ہوا تھا۔
جنوری ۲۰۱۶ میں سعودی عرب میں بغاوت اور دہشت گردی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ایک شیعہ عالم نمرالنمر کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔ اس پر ایران میں شدید ردِعمل سامنے آیا تھا اور مشتعل مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے اور مشہد میں سعودی قونصل خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔