سابق صدر ریاست اور گورنر ڈاکٹر کرن سنگھ نے جموں وکشمیرکے تعلق سے کچھ حساس اور پیچیدہ نوعیت کے سیاسی وانتظامی معاملات پر کھل کر پہلی بار اپنے خیالات کا اظہار کرکے جس حقیقت پسندی کو زبان دی ہے وہ کئی حلقوں کیلئے غور وفکر اور سنجیدہ توجہ کا موجب ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عصر حاضر کی گڈ مڈ سیاسی اُفق، سیاستدانوں کی بدلتی ترجیحات، مفادات کا ٹکرائو، انتظامی موشگافیوں اور سب سے بڑھ کر جیوپولیٹکل اور جیو اسٹرٹیجک منظرنامہ کے ہوتے کیا یہ غور وفکر ممکن ہے اور اگر ہے تو کس حد تک۔
ڈاکٹر کرن سنگھ نے اپنے خیالات کو زبان دیتے وقت مخصوص طور سے تین اہم اشوز کو چھیڑا ہے۔خصوصی دفعہ ۳۷۰؍ کاخاتمہ، پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر کی واپسی اور ریاستی درجہ کی بحالی، الیکشن کے انعقاد اور ایڈمنسٹریشن اور عوام کے درمیان رابطہ کا فقدان ۔
دفعہ ۳۷۰ کے حوالہ سے کرن سنگھ کا ماننا ہے کہ یہ سخت فیصلہ تھا جس کے نتیجے میں جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالہ سے سارا ڈھانچہ ختم ہوا اور تب سے اب تک تین سال ہوگئے جموں وکشمیرکا انتظام براہ راست مرکز کی تحویل میں ہے۔اس دوران کئی اچھے کام بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود ایڈمنسٹریشن اور عوام کے درمیان رابطہ کا فقدان ہے۔ ممبران قانون ساز اسمبلی حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ پل کی حیثیت رکھتے ہیں چونکہ اس وقت کوئی منتخبہ ممبر نہیں لہٰذا سب کچھ بیروکریسی کے ہاتھ میں ہے لیکن بیروکریسی عوام کی سنتی نہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انتخابات کا انعقاد جلد سے جلد ممکن بنایا جانا چاہئے۔
پاکستان کے زیرکنٹرول کشمیرکی واپسی کے بارے میں کرن سنگھ نے دوٹوک الفاظ میں یہ واضح کیا کہ واپسی کے لیے جنگ کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، جو ممکن نہیں، کیونکہ جنگ سے تباہی وبربادی ہوجاتی ہے اور پھر چین بھی وہاں موجود ہے ۔ ان کا مشورہ ہے کہ گھڑی کی سوئیوں کو واپس گھمایا نہیں جاسکتا ہے، اگر چہ تلخ سچ یہ ہے کہ وہ کشمیر ہمارا حصہ ہے اور پاکستان کے ناجائز قبضہ میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ میں ماضی کو اپنے پیچھے چھوڑکر مستقبل پر نظر رکھ کر آگے قدم بڑھانے میںیقین رکھتا ہوں‘‘۔
سابق صدر ریاست اور سینئر کانگریسی لیڈر کے ان خیالات باالخصوص پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیرکے تعلق سے جس آرا کو انہوںنے زبان دی ہے معلوم نہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین اس پر کس نوعیت کا ردعمل دیں گے اور کرن سنگھ کے اس مشاورتی بیان کو کس مخصوص عینک سے دیکھنے کا راستہ اختیار کریں گے، لیکن اس سے قطع نظر کرن سنگھ کے اس بیان کو لے کر کوئی ان کا مخالف چاہئے وہ بدترین سیاسی مخالف ہی کیوں نہ ہو انہیں ملک دُشمن کا نعرہ بلند کرکے سامنے نہیںآئے گا۔
کرن سنگھ کا یہ کہنا کہ گھڑی کی سوئیوں کو واپس پیچھے نہیں موڑا جاسکتا اور میں ماضی کو اپنے پیچھے چھوڑ کر مستقبل پر نظر رکھ کر قدم آگے بڑھانے کا قائل ہوں اس بات کو واضح کرتا ہے کہ جموں وکشمیر کا یہ سینئر سیاستدان جنگ وجدل اور خون خرابہ کا قائل نہیں، بلکہ اس جغرافیائی تقسیم کو حقیقت سمجھ کر اس کا اعتراف کررہاہے۔ یہی نظریہ سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے سرپرست ڈاکٹر فاروق عبداللہ ماضی میںبار بار پیش کرچکے ہیں۔اگر چہ اس حوالہ سے ان کاابتدائی نظریہ یہ تھاکہ پاکستان پر بمباری کرکے ان کے زیر تسلط کشمیر کو چھڑالیاجائے لیکن وقت گذرتے فاروق عبداللہ کے موقف اور اپروچ میں تبدیلی آتی گئی اور وہ جموں وکشمیر میں کنٹرول لائن کے آر پار کی موجودہ حیثیت کو جوں توں کی حیثیت تسلیم کرکے قضیہ ختم کرانے کا مشورہ دے رہے ہیں جس پر انہیں کچھ حلقوںسے ملک دُشمنی کا خطاب بھی عطاہوا۔
پاکستان کے زیر تسلط کشمیرکے بارے میں ملک کا پہلا وزیراعظم آنجہانی نہرو بھی مختلف حلقوں کی تنقید کی زدمیں رہا ہے، ماضی میں جنگ بندی سے متعلق ان کے فیصلے کو ملک کے وسیع تر مفادات کے خلاف قرار دیا جاتا رہا ہے جبکہ اس بارے میں حکمران جماعت کا موقف، نظریہ اور اپروچ یہ ہے کہ کشمیرکاوہ حصہ ہمارا ناقابل تنسیخ حصہ ہے اور مناسب وقت پر اس کو واپس حاصل کرلیا جائے گا۔ اس تعلق سے وقفے وقفے سے کچھ مرکزی لیڈروں کے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں۔
غالباً انہی بیانات کی روشنی میں ڈاکٹر کرن سنگھ سے کشمیرکے اُس حصے کے بارے میں سوال کیاگیا جس کے جواب میں سینئر سیاستدان نے دوٹوک الفاظ میں یہ واضح کیا کہ جنگ کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا لیکن جنگ تباہی مچا دے گا جبکہ اب بدلتے تناظرمیں چین بھی وہاں موجود ہے۔ کرن سنگھ کا یہ بیان مشاورتی بھی ہے اور چتاونی کا حامل بھی ہے۔
جنگ چھیڑ جانے کی صورت میں تباہی کس کی ہوگی، کس کس کا لہو کس سرزمین پر گرے گا؟ اس کا محض تصور ہی لرزہ خیز ہے پھر کرن سنگھ کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ جنگ ہوگی تو کشمیرکے آر پارہی ہوگی، لہٰذا تباہی وبربادی کا سارا بوجھ جموں وکشمیر کا ہی مقدر ہوگا۔ بحیثیت مقامی سینئر سیاستدان کے وہ ایسا نہیں چاہیں گے ، شاید اسی احساس اور تصور سے خائف ہوکر وہ جنگ کی مخالفت کررہے ہیں اور قبل از وقت انتباہ دے رہے ہیں کہ اس صورت میں بڑے پیمانے پر تباہی وبربادی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
جہاں تک اس مخصوص حوالہ سے جموں وکشمیر کے عام لوگوں کا نظریہ اور اپروچ کا تعلق ہے تو وہ یہی ہے کہ جموں وکشمیر نے گذرے برسوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان جن جنگوں کا مشاہدہ کیا ہے اُس کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے وہ جنگ کے حامی نہیں ہیں، اس مدت کے دوران ہمارے سرحدی دیہات اور رہائش پذیر آباد ی کو بڑے پیمانے پر اور مسلسل انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ مال مویشی ، زرعی پیداوار، جائیدادوں اور اثاثوں کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب اگر چہ گذرے دو سال کے دوران آرپار کی جنگ بندی کے طفیل جموںوکشمیر کی سرحدی آبادی قدرے سکون سے زندگی گذار رہی ہے لیکن ۹۹ فیصد آبادی جنگ اور بربادی نہیں چاہتی ہے۔
۷۵ سال اس کھینچی لکیر کو ہوگذرے ہیں، اس دوران جنگیں بھی ہوئی، مذاکرات بھی ہوئے، معاہدے بھی ہوئے اور ٹوٹتے رہے لیکن لکیر جہاں تھی برابر وہیں موجود ہے ۔ کیا فرق پڑے اگر اگلے ۷۵؍ برس بھی یہ کھینچی لکیر اپنی جگہ برقرار رہے۔ البتہ دعویٰ کا جہاں تک تعلق ہے وہ برابر قائم رہے گا ، لیکن مذاکرات کا کوئی آپشن نہیں۔