سرینگر//(مشرق خبر)
سپریم کورٹ نے جموں کشمیر میں اسمبلی اور لوک سبھا کے حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے کیلئے حد بندی کمیشن کی تشکیل کے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی کو مسترد کر دیا۔
جسٹس ایس کے کول اور جسٹس اے ایس اوکا پر مشتمل بنچ نے یہ حکم ایک عرضی میں دیا۔
جسٹس اوکا نے فیصلے کا آپریٹو حصہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ پٹیشن کو خارج کرنے کا مطلب آرٹیکل۳۷۰ کے حوالے سے کئے گئے فیصلوں پر پابندی نہیں لگانا چاہیے کیونکہ مذکورہ مسئلہ آئینی بنچ کے سامنے زیر التوا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ ۶ مارچ ۲۰۲۰ کے حکم کے تحت حد بندی کمیشن کے قیام سے وابستہ ’کوئی غیر قانونی‘ نہیں ہے جس کے ذریعہ مرکز نے یو ٹی میں حلقہ بندیوں کو دوبارہ ترتیب دینے کیلئے ایک حد بندی کمیشن تشکیل دیا تھا۔
بنچ نے اپنے ۵۴ صفحات پر مشتمل اپنے بیان میں کہا’’ مرکز کے زیر انتظام علاقے کو۲۰۱۱ کی مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ۹۰ حلقوں میں تقسیم کرنے کے مقاصد کے لیے حلقہ بندیوں کے کمیشن کے ذریعے حلقہ بندیوں/ری ایڈجسٹمنٹ کی مشق کے بارے میں کچھ بھی غیر قانونی نہیں ہے‘‘۔
بنچ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا کہ جب کوئی پارٹی کسی قانون کی آئینی جواز کو چیلنج کرنا چاہتی ہے، تو اسے ان بنیادوں پر تفصیل سے استدعا کرنی چاہیے کہ جن بنیادوں پر اس قانون کے جواز کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
’’آئینی عدالتیں مقننہ کے ذریعہ بنائے گئے قانون میں مداخلت نہیں کرسکتی ہیں جب تک کہ اسے خصوصی طور پر چیلنج کی مخصوص بنیادوں کو شامل کرکے چیلنج نہیں کیا جاتا ہے‘‘۔بنچ نے کہا ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ قوانین کی آئینی ہونے کا ہمیشہ ایک مفروضہ ہوتا ہے‘‘۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ایک آئینی عدالت کسی مجاز مقننہ کے ذریعہ بنائے گئے قانون سازی میں صرف ان درخواستوں سے ایک نتیجہ نکال کر کہ جواز کو چیلنج کرنا مضمر ہے۔
بنچ نے کہا کہ کسی قانون کی اس انداز میں تشریح نہیں کی جا سکتی جو اس کی کچھ دفعات کو ’اوٹیوز‘ بنا دے اور اس کی تشریح اس طرح کی جانی چاہیے کہ اسے قابل عمل بنایا جا سکے۔
حدبندی کمیشن کے خلاف سرینگر کے دو سیاسی رہنماؤں ‘ عبدالغنی خان اور ڈاکٹر محمد ایوب متو نے حدبندی کمیشن کو چیلنج کیا تھا۔ یہ دونوں کانگرس کے کارکنان تھے۔ تاہم ڈاکٹر محمد ایوب متو بعد میںاپنی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ دونوں مذکورہ رہنماؤں نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ آئین کے دفعہ ۱۷۰ کے مطابق حدبندی سنہ ۲۰۲۶ کے بعد کی جائے گی لیکن جموں کشمیر میں چھ برس قبل حدبندی کرنا آئین اور قوانین کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ حدبندی کمیشن نے جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کا نقشہ تبدیل کرکے سات نئے حلقوں کا قیام کیا۔ ان میں جموں صوبے میں چھ اور کشمیر میں ایک نئی اسمبلی سیٹ کا قیام کیا ہے۔ کمیشن نے کشمیری پنڈتوں کے لیے اسمبلی میں دو سیٹوں کو مختص رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔
اس کے علاوہ جموں صوبے میں آباد مغربی پاکستان کے مہاجرین کے لیے بھی دو سے چار سیٹوں کو مختص کرنے کی سفارش کی ہے۔
حد بندی کشمیر چوں کہ دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد ۶ مارچ سنہ۲۰۲۰ میں قائم کیا گیا تھا جب کہ حدبندی پر سپریم کوٹ نے سنہ ۲۰۲۶ تک پابندی عائد کی تھی۔ اس کے باعث سیاسی و عوامی حلقوں میں اس کے متعلق خدشات کا اظہار کیا گیا۔
غور طلب ہے کہ حد بندی کمیشن کی سربراہی ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کررہی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر سشیل چندر اور جموں و کشمیر کے ریاستی الیکشن کمیشنر کے کے شرما اس کمیشن کے رکن تھے۔
ڈاکٹر محمد ایوب متو نے عدالتی فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ان کو سپریم کوٹ سے کافی امید تھی کہ عدالت ان کی عرضی پر غور کرے گی لیکن مایوسی ہوئی جب عرضی کو جارج کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے عوام میں مایوسی ہوئی ہے اور وہ خود اس فیصلے سے مایوس ہوئے۔