تجاوزات جس کسی بھی ظاہری شکل وصورت میں ہوں وہ بحیثیت مجموعی عوام کیلئے ہی نہیں بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہرفرد کیلئے نقصان دہ اور باعث تکلیف ثابت ہوتے ہیں۔ تجاوزات فٹ پاتھوں اور سڑکوں کے حوالوں سے ہوں تو معمول کے ٹریفک کی نقل وحمل میں شدید رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ ٹریفک جام اور ٹریفک حادثات کا بھی موجب بن جاتے ہیں۔ یہی وہ خاص وجہ ہے جس کے پیش نظر عوامی حلقے مسلسل یہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ انتظامیہ باالخصوص متعلقہ سرکاری ادارے حرکت میں آکر ان تجاوزات کو ختم کرنے میں اپنے فرائض اور ذمہ داریاں نبھائیں لیکن اداروں کی بے اعتنائی اور بے عملی نے لوگوں کو مایوس کرکے رکھدیا ہے۔
راجدھانی سرینگر کا وہ کون سا بازار ہے، سڑک ہے، گلی کوچہ ہے، نکڑ ہے یا چوراہا ہے جہاں تجاوزات کی بھر مار نہیں۔ کون سا فٹ پاتھ اور کون سا پُل ہے جہاں گشتی بازار سجے بٹھائے دکھائی نہیں دیتے۔ لال چوک سے براستہ ریگل تا ٹورسٹ سینٹر تک ، مہاراجہ بازار تا ناز کراسنگ سے لے کر گونی کھن ،لل دید ہسپتال اوران کے سبھی گرد نواح کے مارکیٹ تجاوزات کا مجمعہ ہے۔یہی نظارہ پائین، وسط اور بالائی شہر کے اکثر وبیشتر علاقوں میں نظرآرہاہے۔
بہرحال کچھ دنوں سے کچھ متعلقہ سرکاری ادارے تجاوزات کے خلاف مہم میں سرگرم نظرآرہے ہیں اور اپنی مخصوص صوابدید، سمجھ اور فہم کے مطابق ان تجاوزات کو ہٹار ہے ہیں، ضبطیاں عمل میں لائی جارہی ہیں اور اس طرح خوب سے خوب تر تماشے تجاوزات کو ہٹانے کے نام پر مشاہدے میں آرہے ہیں۔ ان تجاوزات کے خلاف مہم کا جہاں عوامی سطح پر خیر مقدم کیاجارہاہے وہیں کچھ حلقوں کی یہ متفق رائے ہے کہ تجاوزات کو ہٹانے کیلئے جو طریقہ کار اختیار کیاجارہاہے اور جس طریقہ کار کا ہر بازار، ہر گلی اور ہر سڑک پر برملا مظاہرہ کیاجارہاہے وہ نہ تو شرافت اور نہ کسی اخلاقی معیار سے مطابقت رکھتا ہے بلکہ یہ نراغنڈہ گردی ہے۔
اس غنڈہ گردی کے ثبوت ان ویڈیوز سے سامنے آرہے ہیں جو سماجی سائٹوں پرمحوگردش ہیں۔ سوال کیا جارہاہے کہ جو لوگ ، دکاندار یا فٹ پاتھوں کے تعلق سے تجاوزات میں ملوث ہیں کیا انہیں قانون کی روشنی میں از خود تجاوزات ہٹانے کیلئے کہاگیا، کچھ مہلت دی گئی تھی، اس کے باوجود اگر مہلت دی گئی او ر وہ از خود نہیں ہٹے تو تجاوزات ہٹانے کیلئے جو طریقہ کار برئوے کا رلایاجارہاہے وہ عملی غنڈہ گردی سے عبارت ہے۔ توڑ پھوڑ کیاجارہاہے، نقصان پہنچایا جارہاہے، جبکہ دوپیسوں کی مالیت کے ریڈے ضبط کرکے گاڑیوں میںلوڈ کرکے کہیں لے جائے جارہے ہیں جن ریڈوں اور ٹوٹی پھوٹی لکڑی کے ڈھانچوں کی اس ڈھلائی پر ہزاروں روپے کا پیٹرول اور افرادی قوت کا تصرف الگ سے ہے۔
متعلقہ اداروں سے وابستہ اہلکاروں کا یہ مخصوص طریقہ کار انتہائی شرمناک ہے وہیں کشمیر میںغنڈہ کلچر کے اُس دور کی یا د تازہ کررہا ہے جب اسی طرز کا اپروچ بخشی دورمیں لوگوں کے ساتھ روا رکھنے کا رواج عروج پر تھا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ وہ دکاندار جو اپنی اچھی خاصی دکانوں کے باوجود اپنی توند کو پھیلا پھولا کر دکانوں سے باہر سڑک کے کچھ حصوں پر قابض ہوجاتے ہیں۔ پھر ان دکانوں کے سامنے چھاپڑی فروش اور ریڈہ با ن حضرات بھی اپنی دکانیں سجا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ دیکھا دیکھی میں ان دکانوں کے سامنے والے دکاندار بھی اسی طرح کے ناجائز تجاوز پر اُترآتے ہیں۔ یوں تجاوزات کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ چل پڑا ہے جو اب قابومیں نہیں آرہاہے۔
لیکن جہاں اس بے لگام اور بے قابو طریقہ کار کو ختم کرکے لگام کسنے کی اشدضرورت ہے وہیں طریقہ کار میںلچک اور معقولیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ یہ بھی درست ہے کہ تجاوزات کا سہارا دکانداروں ، چھاپڑی فروشوں ،ریڈہ بانوں کیلئے اب لذت بلکہ نشہ بن گیا ہے۔جس نشہ بلکہ اس اُبھرتے کلچر کا قلع قمع کرنا عوام کے وسیع تر مفادات میں ناگزیر بن چکا ہے لیکن حکام اور متعلقہ اہلکار اپنے طرزعمل اور طریقہ کار کو شائستگی اور اخلاقی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ یہ طریقہ کار معاشرتی سطح پر خواہ مخواہ کی دُشمنی ، اختلاف اور تقسیم کا بھی موجب بن سکتا ہے۔
اس سارے منظرنامے کا تعلق ٹریفک مینجمنٹ سے بھی ہے، ٹریفک جام سے پیدا صورتحال بلکہ لوگوں کو پہنچ رہی تکالیف سے بھی ہے، حادثات کی روک تھام سے بھی ہے اور پیدل چلنے والوں کی صحت اور سلامتی کے ساتھ ساتھ ان کے عبور ومرور کو آسان اور سہل بنانے سے بھی ہے۔ لہٰذا ان پہلوئوں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے تجاوزات کا خاتمہ از بس ضروری بن جاتاہے۔
البتہ اس مخصوص مہم کی آڑمیں کسی کا روزگار چھن نہ جائے یا کسی حوالہ سے متاثر نہ ہونے پائے اس کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی کشمیرمیں بے روزگاروں کی لمبی لمبی قطاریں پہلے سے موجود ہیں اور معاشرہ مزید بے روز گاروں یا بے کاروں کا بوجھ برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتاہے۔
اس مخصوص پہلو کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حکومت باالخصوص سرینگر میونسپلٹی کو یہی مشورہ دیاجاسکتا ہے کہ وہ ریڈہ بانوں اور چھاپڑی فروشوں کے روزگار کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے شہر سرینگر کے مختلف علاقوں میں جگہیں مخصوص کریں کیونکہ اس تعلق سے زمین مختص کرنے کیلئے سرکار کے پاس اراضی کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جموں میونسپلٹی اس سمت میں پہلے ہی اقدامات کرچکی ہے اور اس نے چھاپڑی فرشوں اور ریڈی والوں کیلئے جموں شہر کے مختلف علاقوں میں جگہیں مخصوص کردی ہیں۔ یہ طریقہ کار سرینگر میونسپلٹی اور وادی کے دوسرے بلدیاتی ادارے بھی اختیار کرسکتے ہیں۔
ان لوگوں کے حق میں جگہیں مخصوص کرنے سے گاہکوں کو بھی سہولیات ہوں گی اور عبورومرور کے ساتھ ساتھ ٹریفک کی نقل وحرکت بھی بغیر کسی رخنہ کے معمول کے مطابق رہیگی۔
البتہ جموں شہر کے مختلف بازارسرینگر شہر کے مختلف بازاروں کے برعکس کچھ دودھ کے دھلے نہیں، تجاوزات کی وبا نے اگر سرینگر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو جموں کے مختلف بازار ان سے کہیں زیادہ تجاوزات کے تعلق سے پیش پیش ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ جموں کو بھرپور سیاسی اور انتظامی آشیرواد حاصل ہے کشمیر سیاسی اور انتظامی آشیروادسے محروم ہے۔