تل ابیب//
اسرائیلی صدر اسحاق ہرتصوغ حکومت اور عدلیہ کے درمیان پیدا ہونے والے بحران کو روکنے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی صدر کے مطابق "ملک میں عدلیہ پر قدغنیں لگانے کا متنازعہ منصوبہ بحران پیدا کر رہا ہے۔ جس پر مجھے بھی تشویش ہے۔”
ان کے بقول "اس صورت حال سے اسرائیل سے باہر پوری دنیا میں موجود یہودیوں کو بھی پریشانی لاحق ہو گئی ہے۔ کیونکہ ہم اختلاف کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ بہت تشویشناک بات ہے۔ اس لیے میں فریقین سے رابطے میں ہوں اور کوشش کر رہا ہوں کہ بحران ٹلے تاکہ قوم ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو.”
اسرائیل کا یہ اندرونی بحران نئی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے بر سر اقتدار آتے ہی شروع ہونے والی حکومتی و عدالتی محاذ آرائی سے پیدا ہوا ہے۔ حکومت نے آتے ہی اندرونی طور پر سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کرنے کی کوشش کی ہے۔
جبکہ اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ عدلیہ ہی ہے جو بین الاقوامی عدالت انصاف اور اس طرح کے دیگر فورمز سے اسرائیل کو بہت سارے الزامات سے بچانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کی حکومت کے اقدامات سے عدلیہ کی ملک کے اندر اور باہر ساکھ مجروح ہوگی ، عدالتی آزادی متاثر ہوگی اور انسانی حقوق کا معاملہ پست تر ہو جائے گا۔ جبکہ کرپشن بے لگام ہو جائے گی۔
حکومت کے عہدے دار اور حامی الزام لگاتے ہیں کہ عدلیہ سیاست میں گھس رہی ہے اور بائیں بازو کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتی ہے۔
عدالتی اختیارات کے حامیوں نے اس سلسلے میں اب تک ملک کے بڑے شہروں سمیت تل ابیب میں بڑے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔ ہفتہ اور اتوار کی رات اب تک کا سب سے بڑا احتجاج ہوا ۔
جس سے صدر اسحاق ہرتصوغ کو بحران کی شدت کا اندازہ ہونے لگا ہے۔ صدر کا کہنا ہے کہ ان کی کوششوں کا فوکس اس بات پر ہے کہ اس تاریخی بحران کو روکا جائے اور قوم میں دراڑ نہ پیدا ہونے دی جائے۔ دوسری جانب وزیر اعظم نیتن یاہو جو چھٹی بار وزیر اعظم بنے ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ ان عدالتی اصلاحات کی کوشش پہلے والی حکومتوں نے چاہی تھی۔ لیکن اس وقت ان کی جمہوریت کو کوئی خطرہ کیوں نہیں ہوا تھا۔