اسمبلی الیکشن جب ہوں گے تب دیکھاجائے گا لیکن جو سیاسی پارٹیاں الیکشن کے لئے ہلکان ہوتی جارہی ہے اور دن رات الیکشن الیکشن کی راگنی کا راگ الاپتی رہتی ہیں اوسط شہری یہی سوال کررہاہے کہ الیکشن جیت بھی جائیں، اسمبلی کا حصہ بھی بن جائیں اور حکومت سازی میں بھی کامیاب ہوجائیں لیکن وہ یہ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد کون سا کردار اداکرسکتی ہیں جبکہ ان کے ہاتھ میں ذرہ بھر بھی اختیارنہیں اور نہ ہی قانون سازی کی کوئی حیثیت۔
خالی الیکشن کے انعقاد کی باتیں کرنے یا الیکشن میں شرکت کے حوالہ سے اپنا جوش وخروش دکھانا تو کسی حد تک درست ہے لیکن اُس الیکشن کا کیا فائدہ جو منتخب ہونے کے باوجود منتخبہ ارکان کو کوئی اختیار تفویض نہ کرتا ہو، جو عوام کی فلاح، بہبود اور ترقی کے حوالہ سے مقامی ضروریات اور مقامی رائے دہندگان کی خواہشات کے مطابق قانون سازی کا کوئی اختیارنہ رکھتا ہو یا قدم قدم پر منظوری حاصل کرنے کیلئے اپنے سے حد سے زیادہ بااختیار کی دیلیز پر دستک دینے کا محتاج ہو۔
عوامی حلقوں میں اس بات پر بحث جاری ہے۔ لیکن سیاسی پارٹیوں کی طرف سے زبانیں مہر بہ لب ہیں ۔ کوئی بات نہیں کی جارہی ہے ۔ وہ سارے قوانین جو جموںوکشمیر میں بحیثیت ریاست کے نافذ العمل تھے کالعدم ہوچکے ہیں اور ان کی جگہ نئے مرکزی قوانین جموں وکشمیر میں بحیثیت یوٹی فی الوقت نافذ العمل ہے۔ ان سارے قوانین کی عمل آوری کا اختیار لیفٹنٹ گورنر کی وساطت سے ایڈمنسٹریشن کے ہاتھ میں ہیں۔ ظاہر ہے ان سارے قوانین ، اختیارات اور مروجہ طریقہ کار کے ہوتے جو اسمبلی وجود میں آئے گی اور اُس اسمبلی کیلئے جو لوگ منتخب ہوکر رکن بن جائیں گے ان کے ہاتھ میں ان قوانین کی عمل آوری کا اختیار نہیں ہوگا۔
بے شک کچھ اختیارات منتخبہ اراکین یا نئی حکومت کے ہاتھ منتقل ہوں گے لیکن اُسی صورت میں جب یوٹی کو واپس ریاست کا درجہ دیاجائے گا۔ یہ نیا درجہ یا رتبہ کب بحال ہوگا اس بارے میں وقت کی کوئی ضمانت نہیں، البتہ مرکز بار بار یہ یقین دہانی کراتی رہی ہے کہ ’مناسب وقت‘ پر ریاست کا درجہ بحال ہوگا۔ البتہ ریاستی درجہ کی بحالی کی یقینی دہانی بھی ہے اور سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لیڈر شپ کی طرف سے مطالبات بھی سامنے آرہے ہیں لیکن قوانین ، قانون سازی اور اختیارات کے بارے میں کوئی بات نہیں ہورہی ہے۔
یہ کوئی معمہ ہے یا پُراسرار خاموشی، اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن بادی النظرمیں سیاسی اور انتظامی مصلحتیں ہی کار فرما محسوس بھی ہورہی ہیں اور نظر بھی آرہی ہیں۔ یہی وہ مخصوص منظرنامہ ہے جس نے رائے دہندگان میں کنفیوژن پیدا کردیاہے۔وہ الیکشن میں شرکت یا عدم شرکت کے بارے میں تذبذب اور بے یقینی محسوس کررہے ہیں، کیونکہ رائے دہندگان جو فکر وحساسیت کے حوالہ سے سنجیدگی کے حامل ہیں اس رائے کو بطور دلیل یا استدلال کے پیش کررہے ہیں کہ جن اراکین کو وہ منتخب کرنے جارہے ہیں جب ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہوگا تو اُس صورت میں عوام کس بہتری کی توقع کریں۔
پھر یہ بھی فی الوقت ریکارڈ پر ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں یوٹی کا درجہ دیئے جانے کے فیصلہ کو تین سال ہوگئے اور ابھی بھی نئی قانون سازی یا دوسرے الفاظ میں مرکزی قوانین کے نفاذ کا نہ صرف عمل جاری ہے بلکہ اب تک نافذ العمل کئی مرکزی قوانین کو مقامی سطح کی ضروریات اور اداروں کی سہولیات سے ہم آہنگ بنانے کی سمت میں اُن قوانین میں ترامیم کا سلسلہ بھی جاری ہے ریاستی درجہ کی واپس بحالی کی صورت میں ظاہرہے قوانین اور اختیارات کے تعلق سے نئے مراحل درپیش ہوں گے۔
نیشنل گرین ٹریبونل کا رول محض تماشائی
نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) قومی سطح کا ایک اہم ادارہ ہے جس کی ذمہ داریوں میں ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے اور تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے منسلکہ امورات کی نگرانی کی اہم ذمہ داری بھی ہے۔ یہ ادارہ قومی سطح پر اہم کردارادا کررہاہے اور جونہی کسی خلاف ورزی کی شکایت اِس ادارے تک پہنچ پاتی ہے تو ادارہ حرکت میں آکر کارروائی کرتا ہے۔
لیکن جموںوکشمیر کے حوالہ سے یہ ادارہ خاموش ہے، تماشائی کا سا رول اداکررہاہے، جبکہ کچھ حلقوں کا کہناہے کہ وہ ادارے کی توجہ ماحولیاتی توازن کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کی طرف مرتکز کرتے رہے ہیں لیکن ان کی شکایات کا کوئی نوٹس نہیں لیاجارہا ہے۔
ترقیات اور رسل ورسائل کے نام پر جموں اور کشمیر میں فی الوقت کئی ایک پروجیکٹوں پر کام ہورہاہے۔ اس تعلق سے کئی علاقوں میں پہاڑوں کو بارود سے دھماکہ کرکے شاہرائوں کی کشادگی کیلئے کام کیاجارہاہے لیکن پہاڑوں سے جو ملبہ پتھروں، ریت اور تودوں کی صورت میں زمین پر آرہاہے اس کو ٹھکانے لگانے کیلئے نہ متعلقہ سرکاری اداروں ؍وزارتوں اور نہ ہی ٹھیکہ دار فرم نے کوئی مناسب طریقہ کار اختیار کررکھاہے۔ سارا ملبہ بلڈوزروں اور جے سی بی کو کام پر لگا کر نیچے کھائی میں گرایا جارہاہے۔
اس حوالہ سے سرینگر…جموں شاہراہ کو چارلین کشادہ بنانے سے متعلق پروجیکٹ کی مثال دی جاسکتی ہے ، گذشتہ کئی سالوں سے اس ساری شاہراہ جو ۳۰۰؍ کلومیٹر لمبی ہے اور جس میں سے تقریباً اڑھائی سو کلومیٹر پہاڑی دروں پر مشتمل ہے کی پہاڑیوں کو بارود سے اُڑانے کا سلسلہ جاری ہے۔ دھماکوں کے نتیجہ میں جو ملبہ ریزہ ریزہ ہوکر نیچے آرہاہے ا سکو سڑک کے ساتھ ساتھ بہہ رہے دریاکی نذر کیاجارہاہے، جس بھرائی کے نتیجہ میں نہ صرف پانی کی روانی متاثر ہورہی ہے بلکہ کھائی کا حجم بھی گھٹتا جارہاہے۔ لیکن سب سے سنگین معاملہ خطے میں ماحولیاتی توازن کے بگڑجانے کا ہے جو مضمرات سے عبارت ہے۔
نیشنل گرین ٹریبونل کی توجہ مبذول کی جاتی رہی ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔اسی طرح کشمیرمیں ایک نئی رنگ روڈ کی تعمیر کاسلسلہ جاری ہے۔ اس سڑک کی تعمیر کے لئے نزدیکی کریواکی کھدائی کرکے روزانہ لاکھوں ٹن وزنی مٹی بھرائی کیلئے بروئے کار لائی جارہی ہے۔ حالانکہ اس بھرائی کیلئے مقامی ماہرین اور حساس حلقوں نے کئی ایک متبادل آپشن بھی پیش کئے لیکن ٹریبونل حرکت میں آرہاہے اور نہ ہی متعلقہ انتظامی ادارے ٹس سے مس ہورہے ہیں۔ جن ٹھیکہ دار فرموں کے حق میں کام الاٹ کئے گئے ہیں وہ کریوا کی کھدائی سے حاصل مٹی کو ’مال مفت دل بے رحم‘ کے طور حاصل کرکے جہاں خوب سرمایہ حاصل کررہے ہیں وہیں کریوا کو زمین بوس کرکے کشمیرکے مستقبل کے تعلق سے اہم ترین بلکہ حساس معاملات کیلئے نئے خطرات کا سنگ بُنیاد ڈال رہے ہیں۔
پہلگام، سونہ مرگ، گلمرگ اور دوسرے کئی علاقوں میں بھی مختلف طریقوں سے ماحولیات کو سنگین خطرات سے ہم آہنگ کیاجارہاہے جبکہ جہلم سے معدنیات حاصل کرنے کیلئے جو ٹھیکے الاٹ کئے گئے ہیں ان کے بارے میں بھی مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ کسی توازن کو برقرار رکھنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔
کیا قومی سطح کا یہ ادارہ جموںوکشمیر میںماحولیات کے توازن کو تحفظ فراہم کرنے کی سمت میں اپنے تماشہ بینی کا رول تیاگ کر ایک قومی فریضہ سمجھ کر اپنا ذمہ دارانہ کردارادا کرنے کیلئے حرکت میں آئے گا؟