راجوری کے ڈونگری علاقہ میں نامعلوم مسلح افراد کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجہ میں چار شہری لقمہ اجل جبکہ چھ دوسرے زخمی ہوگئے ہیں جو جموں کے ہسپتال میں فی الوقت زیر اعلاج ہیں۔ راجوری میںحالیہ ایام میںیہ اپنی نوعیت کا دوسرا ہلاکت خیز واقعہ ہے ، پہلے واقعہ میں دو شہری آرمی گیٹ کے نزدیک مردہ پائے گئے، ان کی ہلاکت کے حوالہ سے متضاد دعویٰ اب تک سامنے آچکے ہیں لیکن کئی روز گذر نے کے باوجود ابھی تک قطعیت کے ساتھ کچھ بھی سامنے نہیں لایاگیا ہے۔
دوسرے واقعہ کے بارے میں کہا جارہاہے کہ دو مسلح جنگجو گاڑی میں سوار ہو کر آئے، مکینوں کی آدھار کارڈ کے حوالہ سے شناخت کی اور تین مکانوں جو آپس میں ایک دوسرے سے تقریباً ۵۰، ۵۰ فیٹ کی دوری پر واقع ہیں کے مکینوں پر اندھا دھند فائرنگ کی، جو دس منٹ تک جاری رہی اور پھر اُسی گاڑی میں فرار ہوگئے۔ اس دلخراش سانحہ کے خلاف کئی مسلمان اور غیر مسلم تنظیموں نے یوم احتجاج کی کال دی جس کی حمایت بی جے پی نے بھی کی۔
ان دو واقعات سے قبل ابھی چند روز پہلے سدراہ بائی پاس پر ایک اچانک مڈبھیڑ میں چار دہشت گردوں کی ہلاکت کا معاملہ سامنے آیا جبکہ وہ ٹرک جس میں سوار ہوکر یہ جنگجو غالباً جموں سے سرینگر کی طرف جارہے تھے واقعہ میں آگ لگ جانے سے برباد ہو گئی۔ یہ تینوں تازہ ترین واقعات دو اہم پہلوئوں کی طرف واضح اشارہ کررہے ہیں۔ ایک یہ کہ دہشت گرد انہ واقعات کے حوالہ سے جموں کے کچھ مخصوص علاقوں کو اب نشانہ بنایاجارہا ہے جبکہ ان علاقوں کو دہشت گردی کے نئے مراکز کے طور پر اختیار کیاجارہاہے۔ دوئم یہ کہ دہشت گردی پھر سے سراُبھار رہی ہے ۔
جنگجو یا نہ واقعات میںحالیہ چند برسوں کے دوران اگر چہ نمایاں کمی ہوئی ہے لیکن اب پھر سے جنگجوئیت سر اُبھارتی نظرآرہی ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہی محسوس کی جارہی ہے اور بادی النظرمیں دکھائی بھی دے رہی ہے کہ سرحد کے اُس پار پاکستان سیاسی،معاشی ، اخلاقی شعبوں میں بڑی تیزی کے ساتھ نیچے کی طرف لڑھکتا جارہاہے اور اداروں کا کنٹرول کمزور پڑ کر بے لگام ہو تاجارہاہے جبکہ اندرونی بحرانوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے کشمیر کی طرف رُخ پھیر دیاگیا ہے بعض سیاسی لیڈروں اور اداروں کے ذمہ داروں کے کچھ حالیہ بیانات اس حوالہ سے بطور ثبوت پیش کئے جارہے ہیں۔
عین اس وقت جب ڈونگری راجوری کے دلخراش واقعہ کی اطلاعات سامنے آرہی تھی سرینگر میں نوشہرہ کے قریب گرینیڈ دھماکہ میں ایک شہری کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع آئی۔جبکہ ڈونگری راجوری کے علاقہ میں ہی فائرنگ کے واقعہ کے محض چند گھنٹے بعد گرینیڈ دھماکہ میں دو کمسن بچے ہلاک ہوگئے جبکہ کچھ اور زخمی بتائے جاتے ہیں۔ یہ سارے واقعات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ جنگجوئیت کا عفریت ابھی زندہ ہے گوکہ قدرے کم ہوا ہے۔ اس سارے منظرنامہ کے حوالہ سے آئے روز مختلف ایجنسیوں کی جانب سے جوا عداد وشمارات پیش کئے جاتے رہے ہیں وہ جہاں گنتی تک محدود یا گنتی کے حوالہ سے کچھ مقاصد اور اہداف کے حصول کے حوالہ سے ہوسکتے ہیں لیکن زمینی حقیقت ان دعوئوں سے مختلف ہے جو اب راجوری میں پیش آمدہ متواتر معاملات کے تعلق سے سامنے بھی آرہے ہیں۔
اعداد وشمارات کے تعلق سے چاہئے مقامی ریکرٹمنٹ میں ۳۷؍ فیصد کمی یا دراندازی کے واقعات میں ۲۷؍ فیصد کمی کا دعویٰ ہی صحیح کیوں نہ ہو لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ ایک معمولی واقعہ بھی پر تشویش اور دہشت گردی کے تعلق سے خوف ودہشت کے سایوں کو دراز کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ واقعات جو وقفے وقفے سے پیش آرہے ہیں قیام امن اور ترقی کے حوالہ سے کی جارہی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔
آنے والے دنوں کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کہا نہیں جاسکتا ہے کہ جنگجوئیت اور جنگجویانہ سرگرمیوں میں کوئی کمی آئیگی یا ان میں شدت آئیگی، البتہ آثار وقرائن سے جو کچھ محتاط اندازے لگائے جاسکتے ہیں وہ یہی ہیں کہ چونکہ افغانستان اور پاکستان کا دوطرفہ ٹھیٹھرپھر سے تبدیل ہورہا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف سرحدی جھڑپوں میں تیزی آرہی ہے جبکہ خود افغانستان کے اندر طالبان مخالف عنصر اورپاکستان کے اندر طالبان اور کچھ غیر ملکی دہشت گردتنظیموں کی سرپرستی میں مقامی طالبان بڑے پیمانے پر سرگرم ہوکر دہشت گردانہ کارروائیوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرتے جارہے ہیںلہٰذا کشمیر بھی ان عنصروں کی توجہ کا مرکز بنے رہے گا یا رہ سکتا ہے۔
طالبان حکومت اور اس کے ذمہ داروں کا یہ کہنا کہ وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتی ہے اس حوالہ سے قابل اعتبار نہیں کہ خود طالبان قیادت کو اب افغانستان کے اندر اپنے مخالف گروپوں کی بڑھتی دہشت گردانہ کارروائیوں کا سامنا ہے، جس کا ثبوت اب مسلسل طور سے بھرے بازاروں اور مساجد میں نمازیوں کے اجتماعات پر خود کش حملوں کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ پاکستان کے اندر بھی طالبان سرگرم ہیں اور حالیہ ہفتوں میںنہ صرف پولیس، رینجرس بلکہ پاکستان آرمی ان حملوں کی زدمیں آئی ہے جس کے نتیجہ میں اس کے درجنوں اہلکار لقمہ اجل ہوچکے ہیں۔
کشمیر کیلئے یہ دوطرفہ خطرہ کچھ کم نہیں۔ ماضی بھی اس کا گواہ ہے تو مستقبل کون سی ضمانت فراہم کررہاہے۔ خود حکام اس بات کا حالیہ ایا م میں اعتراف کرچکے ہیں کہ افغانستان سے چلے جانے کے وقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو ہتھیار رائفلیں اور دوسرا حرب وضرب افغانستان میں چھوڑا تھا کشمیر میں کچھ کارروائیوں کے دوران اُسی ساخت کے ہتھیار برآمد کرلئے گئے ہیں۔ ہتھیاروں کی یہ برآمد گی اس بات کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ دراندازی پرمکمل کنٹرول ابھی نہیں کیاجاسکا ہے دراندازی ہورہی ہے، ہتھیار سمگل ہوکر کشمیر اور اب جموں تک سمگل کئے جارہے ہیں جبکہ ہتھیاروں کی ترسیل کیلئے ڈرونوں کو استعمال کیاجارہاہے۔
امریکی اور اس کے اتحادیوں کے چھوڑے ہتھیار وں کی کشمیرسے برآمدگی سکیورٹی ایجنسیوں کیلئے چوکسی اور فعال ہونے کیلئے واضح پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔جو اس بات کی بھی ایک علامت ہے کہ سرحد کے اُس پار کے اداروں کے ارادے اورنیت ٹھیک نہیں۔ تعلقات میں بہتری اور گرمجوشی کے دعویٰ کھوکھلے اور بے اعتبار ہیں۔ بہرحال تھوڑی سی لغرش اور تساہل پسندی پھر سے کشمیر کو واپس پیچھے کی طرف دھکیل سکتی ہے ، پیغام واضح ہے۔