سرینگر/۳۱دسمبر
کیرالہ کے گورنر‘ عارف محمد خان نے ہفتہ کو کہا کہ کشمیر کو خصوصی بنانے کےلئے کسی قانون کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ جگہ پہلے ہی ہر لحاظ سے خاص ہے۔
ایس کے آئی سی سی سری نگر میں ایک تقریب کے موقع پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے خان نے کہا کہ جدید دنیا میں ایسے تمام قوانین کو ختم کر دیا گیا ہے جو کسی کو اس کی قومیت کی بنیاد پر خصوصی حیثیت دیتے ہیں۔
خان نے کہا”کشمیر پہلے ہی بہت سی چیزوں کی وجہ سے خاص ہے۔ کشمیر کو خصوصی بنانے کے لیے کسی قانون کی ضرورت نہیں۔ بہت ساری تعلیمات، فن اور کاریگر اور خوبیاں ہیں۔ آپ کی پوزیشن پہلے ہی خاص ہے۔ دنیا بھر میں قانون میں خصوصی پوزیشن ختم ہو چکی ہے“۔
خان نے کہا کہ اگر کوئی لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہندوستانیوں کو سب سے زیادہ فکر مند ہونا چاہئے کیونکہ ملک پہلے ہی 1947 میں اس طرح کی تقسیم کا سامنا کر چکا ہے۔
کیرالہ کے گورنر نے کہا کہ یہ وقت لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا نہیں ہے کیونکہ دنیا ایک گلوبل ولیج بنتی جا رہی ہے جہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔
اس سے پہلے کیرالہ کے گورنرنے سرینگر میں صوفی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا”جہاد کسی دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے کا نام نہیں ہے“۔ انہوں نے کہا کہ قرآن ہتھیار اٹھانے کے اجازت نہیں دیتا تب تک جب تک آپ پر ظلم نہیں ہورہا ہو۔
خان نے زور دیتے ہوئے کہا ”سیاست کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے، لیکن دین میں کوئی زبردستی نہیں ہوتی ہے۔ قانون سے کسی کو خصوصی درجہ نہیں ملتا، خصوصی درجہ اس کے اخلاق سے ہوتا ہے“۔ ا±ن کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر علم و دانش اور حکمت کا مرکز ہے اور یہاں کے لوگوں کو اپنی حیثیت کو پہچانے کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں جمہوریت ہو ترقی ہو۔
واضح رہے کہ صوفی ازم، جسے تصوف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، مذہبی عمل ہے، جو بنیادی طور پر اسلام میں پائی جاتی ہے، جس کی خصوصیت اسلامی روحانیت، رسم پرستی، سنیاسی اور باطنی پر مرکوز ہے۔ گلوبل اسٹریٹیجک پالیسی فاو¿نڈیشن پونے کا سرینگر میں صوفی کانفرنس انعقاد کرنے کا مقصد انسانیت کا پیغام پھیلنا تھا۔