قطر میں منعقد ہونے والا فیفا ورلڈ کپ ارجنٹائن کی فتح پر ختم ہوا لیکن 45 روز تک جاری رہنے والا یہ ایونٹ کئی تنازعات کے ساتھ ساتھ شائقین کے ذہنوں میں کئی خوش گوار یادیں بھی چھوڑ گیا ہے۔
ایونٹ میں مراکش ، سعودی عرب اور جاپان نے جہاں بڑی ٹیموں کو اپ سیٹ کیا تو وہیں دنیائے فٹ بال کے بڑے کھلاڑیوں نے بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔
سن 2010 میں اس ایونٹ کی میزبانی حاصل کرنے والے قطر نے اس ایونٹ کو چار چاند لگانے کے لیے بھرپور محنت کی تھی اور جدید سہولیات سے آراستہ شان دار اسٹیڈیمز کی تیاری کے علاوہ دنیا بھر سے آنے والے شائقین کو اپنی ثقافت سے روشناس کرانے کے بھی مواقع فراہم کیے۔
وہیں قطر کی میزبانی میں ہونےو الا یہ ایونٹ تنازعات کی زد میں بھی رہا۔
فیفا ورلڈ کپ کے دوران خوبصورت اسٹیڈیم، رضا کاروں کی بڑی تعداد، سیکیورٹی کے بہترین انتظامات اور شائقین کے لیے ٹرانسپورٹ اور رہائش کے انتظامات دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
تیس لاکھ سے بھی کم آبادی والے اس خلیجی ملک کی جانب سے اس بڑے ٹورنامنٹ کی میزبانی کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
قطر نے انفرااسٹرکچر، ہوٹلز کی تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کی جدید سہولیات فراہم کرنے کے لیے لگ بھگ 220 ارب ڈالرز خرچ کیے۔ یہ رقم روس کی جانب سے 2018 کے ورلڈ کپ کے لیے کیے گئے اخراجات سے 20 گنا زیادہ تھی۔روس نے 2018 کےورلڈ کپ پر لگ بھگ 11 ارب ڈالرز خرچ کیے تھے۔
ایک جانب ایونٹ کے بہترین انعقاد پر بعض ممالک قطر کی تعریف کرتے رہے تو وہیں یہ ایونٹ تنازعات کی زد میں بھی رہا۔
انفراسٹرکچر اور اسٹیڈیمز کی تعمیر کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کم اُجرت کے معاملات پر بھی قطر کو تنقید کا سامنا رہا۔
اسی طرح قطری حکومت پر اظہار رائے کو دبانے کے الزامات بھی عائد ہوتے رہے۔ہم جنس پرستوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ‘ون لو آرم بینڈ پہننے اور اسٹیڈیم میں خاص قسم کے جھنڈے لانے پر پابندی کے معاملات پر بھی تنازعات رہے۔
قطر ورلڈ کپ ماضی میں ہونے والے ورلڈ کپ مقابلوں سے اس لحاظ سے بھی منفرد تھا کہ اس میں سب سے زیادہ گول اسکور ہوئے۔
قطر ورلڈ کپ کے دوران مجموعی طور پر 172 گول اسکور ہوئے جب کہ فائنل میں بھی ارجنٹائن اور فرانس نے تین، تین گول کیے جس کے بعد فائنل کا فیصلہ پنلٹی ککس پر ہوا۔
ورلڈ کپ کے دوران کچھ میچز میں شائقین کو بوریت کا احساس بھی ہوا لیکن بیشتر میچز اور ان کے نتائج نے دنیا بھر کے شائقین کو حیران کیا۔ ایسے مقابلوں میں گروپ اسٹیجز میں کھیلے جانے والا سعودی عرب اور ارجنٹائن کا میچ بھی تھا۔