بدھ, جولائی 9, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

’جنگجو کشمیر بھیج کرہم نے حاصل کیاکیا؟‘

پاکستانی صحافی ایاز امیر کا پاکستان سے سوال

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2022-12-21
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

پاکستان کے ایک سینئر صحافی اور سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی دست راست تصور کئے جارہے ایاز امیر نے اپنے ایک مضمون میں ہند پاک تعلقات کے حوالہ سے موجودہ زمینی حقائق کے تناظرمیں اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں ملک کشیدگی کو جاری رکھتے ہوئے کیا حاصل کررہے ہیں اور سوال کیا ہے کہ چین اور تائیوان مسائل اور کشیدہ تعلقات میں اُلجھے ہیں لیکن آپسی تجارت چلتی ہے، امریکہ اور چین کے تعلقات ٹھیک نہیں لیکن دونوں ایک دوسرے کے تجارتی پارٹنر ہیں، ہندوستان اور چین کے تعلقات خراب ہیں، سرحد پر گاہے گاہے جھڑپیں بھی ہوتی ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم تقریباً ایک سو بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی خود سے سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہم کس عقل کی پیداوار ہیں کہ ہندوستان جس سے جغرافیائی لحاظ سے ہمارا کوئی چھٹکارا نہیں اس کے ساتھ ہم نے تمام دروازے بند کئے ہوئے ہیں‘‘۔
ایاز امیر نے اپنے اس مضمون میں کشمیرکے کئی حوالے دئیے ہیں جبکہ کشمیرکے تعلق سے پاکستانی سوچ، طرزعمل اور طریقہ کار کوآڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ’ ’جب دفعہ ۳۷۰ کو ختم کیا گیا اور کشمیر کا آئینی الحاق ہندوستان سے کردیاگیا تو ہم پاکستانیوں کو پنڈت جواہر لال نہرو کی تقریریں یاد آنے لگیں اور کہنا شروع کردیا کہ مودی سرکار ان سے انحراف کررہی ہے۔ کیا یہ ہماری مفلسانہ افکار کا آئینہ نہیں ؟ کشمیر کاکوئی فوری حل نہیں۔ ہمارا کیا مسئلہ ہے۔ ہم نے وہاں (کشمیر) جنگجو بھیج کے دیکھ لیا، قتل وغارت ہوئی، کشمیرآزاد نہ ہوا، جنگجویانہ کارروائیوں کی اب کشمیرمیں گنجائش نہیں، جتنا جلد ہم یہ سمجھ سکیں اتنا ہمارے لئے بہتر ہے۔ کشمیریوں کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔ جنگجویانہ کارروائیوں سے ان (کشمیریوں) کی زندگیاں بہتر نہیں ہوئیں…… نچوڑ یہ ہے کہ موجودہ پالیسیوں سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہورہاہے۔‘‘
ایاز امیر غالباً پہلے پاکستانی صحافی نہیں ہیں جو ہند پاک تعلقات کوا س مخصوص عینک سے دیکھ کر افسردہ نظرآرہے ہیں ۔ اور بھی کئی ہیں جو چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان آپسی اور خوشگوار تعلقات قائم ہوں، عوامی سطح پر رابطے اور آنا جانا ہو، تجارتی اور کاروباری تعلقات قائم ہوں، بھلے ہی دوسرے کئی معاملات پر دونوں کے اختلافات ہوں جنہیں مذاکرات کی وساطت سے ایک ایک کرکے حل تلاش کیا جاسکتاہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ دونوں کے درمیان سرحد کی جو لکیر کھینچ چکی ہے اس میں کسی قسم کا بدلائو لایاجاسکے۔ اس جغرافیائی حقیقت کو تسلیم کرنا دونوں کے بہتر مفادات میں ہے۔
مضمون نگار کے ان خیالات کو پاکستان کے موجودہ معاشی بحران، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی مسلسل درگت، ہوشربا مہنگائی سے معاشرتی سطح پر پیدا ہورہے تکلیف دہ حالات اور پھر سیاسی سطح پر بے چینی، تذبذب ، اپوزیشن اور حکومت کے درمیان گہرے ہوتے جارہے اختلافات، بدلہ کے جذبات سے عبارت انتقامی کارروائیاں اور اب نئے سرے سے دہشت گردی اور لٹیرانہ سرگرمیوں کاسامنا کے مخصوص تناظرمیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو کچھ نہ کچھ حد تک بہتر بنانے سے ان میں سے کئی ایک بحرانوں پر پاکستان آسانی سے قابو پاسکتاہے۔ لیکن جیسا کہ خود ایاز امیر تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نے تجارت کے تعلق سے ہندوستان کے ساتھ دروازے بند کرکے واقعی اپنی مفلسانہ فکر کا مظاہرہ کیا ہے۔
کشمیرکے تعلق سے جن خیالات کو ضبط تحریر میں لایا ہے وہ مفروضہ پر مبنی نہیںہے بلکہ تلخ حقائق ہیں۔ ایازامیر کا یہ اعتراف بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ’’ہم نے جنگجو کشمیر بھیج کردیکھ لیا، قتل وغارت ہوئی لیکن کشمیر آزاد نہ ہوا اور اب کشمیرمیں جنگجو کارروائیوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ‘‘۔
کشمیر تو ایک مدت سے چلا رہا ہے کہ سرحد پار سے مسلح دراندازی کی پالیسی کا باب بند کرکے مذاکرات کا راستہ اختیار کیاجائے، کشمیرکو کھنڈرات میں تبدیل کرنے سے پاکستان کو کچھ بھی نہ ملا، یہی سوال ایاز امیر پاکستان کے سیاستدانوں، پالیسی ساز اداروں، خدائی مخلوق( آرمی اور آرمی کی ذیلی شاخوں کے ساتھ ساتھ ان عناصر سے بھی کررہے ہیں جو کشمیرپر آنکھیں بند کرکے ۷۵ ؍سال سے چلا رہے ہیں اور دہلی کے لال قلعہ پر سبزہلالی پرچم لہرانے کے خواب دیکھ اور پاکستانی عوام کو سنا سنا کر انہیں بے وقوف بنارہے ہیں۔ پاکستان کے ایک سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو بھی اس احمقانہ نظریہ اور اپروچ کا احساس ہوا تھا اور اُس نے بھی اپنے دور اقتدار کے دوران ان عناصر کو اپنی احمقانہ اور طفلانہ سوچ کے خول سے باہر آنے کا یہ کہکر مشورہ دیا کہ وہ دہلی کے لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے خواب دیکھنا بند کریں۔ لیکن یہ پاکستان کا پالیسی المیہ ہے کہ وہاں کچھ ادارے اور جنون پرست فکر کے حامل لوگوں کی کچھ تعداد اس قسم کے خواب دیکھ رہی ہے اور ہزیمتوں پر ہزیمتیں اُٹھانے اور جھیلنے کے باوجود خوابوں کی دُنیا سے خود کو باہر آنے کیلئے تیار نہیں۔ کیایہ تعبیر کی غلطی نہیں؟
کشمیربے شک فی الوقت سنگین ترین دور سے گذررہاہے اوسط کشمیری گوناگوں مسائل اور مصائب سے جھوج رہا ہے ، اس کے سر سے چھت اور پائوں کے نیچے سے زمین بڑی تیزی کے ساتھ سرکتی جارہی ہے، وہ معاشی بحران سے جھوج رہاہے، روزگار کے حوالہ سے روٹی اور سکون کے حوالہ سے چھت سے محروم ہوتا جارہاہے، ان حالات کے مخصوص تناظرمیں جب ٹھنڈے دل ودماغ سے غورکیاجاتا ہے اور اب تک پیش آمدہ حالات واقعات کا گہرائی سے تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہی مخصوص جواب سامنے آجاتا ہے کہ یہ سب کچھ اُس مسلح دراندازی کا ثمرہ ہے جو سرحد کے اُس پار سے وہاں کے سیاستدانوں، اس کے اداروںاور پالیسی ساز لوگوںنے کشمیر کے تعلق سے مرتب کی اور اب جس پالیسی کو گذشتہ ۳۰؍ برسوں سے عملی جامہ پہنا یاجارہاہے۔
مضمون نگار نے کشمیرکے تعلق سے جنگجویانہ کارروائیوں اور جنگجو کشمیر کی طر ف روانہ کرنے کی اسی پالیسی ، طریقہ کار اور کشمیرکو بحیثیت مجموعی پہنچے نقصانات اور تکالیف کی طرف واضح اشارہ کرکے یہ واجبی سوال کیا ہے کہ ’ہم نے حاصل کیا کیا،لیکن کیا پاکستان کے پالیسی ساز افراد اور ادارے اس سوال کاجواب دیں گے، نہیں، اور نہ ہی اس سوال پر غور وفکر کرنے کی زحمت گوارا کریں گے ۔ کیونکہ یہ اُن جنو پرستوں کے مزاج میں شامل نہیں۔
کشمیر اپنی مفرد سوچ ، شناخت اور تشخص رکھتا ہے۔ اس سوچ، تشخص اور شناخت کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ واقعات اور معاملات سے بھری ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ عہد شکنیوں، جعلسازیوں، ریاکاریوں، دغابازیوں اور پیٹھ پیچھے چُھرا گھونپنے کے روادار عنصر کی معاونت نے اس شناخت او رتشخص کو ہر دور میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی، عصری تاریخ بھی اس کی گواہ ہے جس کا تعلق ۱۹۴۷ء ، ۱۹۶۵ء اور دوسرے ادوارمیں پیش آمدہ واقعات میںکشمیر کے مجموعی رول اور کردار کے ساتھ ساتھ مزاحمت سے ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ خطے کی طاقتوں کو اس کانہ اعتراف ہے ، احسا س ہے اور نہ سمجھ!

 

 

متعلقہ

بارشیں‘ نکاس آب کا مسئلہ اور سمارٹ سٹی پروجیکٹ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

احسان کی قیمت

Next Post

راہل دوسرے ٹیسٹ میچ سے باہر ہو سکتے ہیں

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

بارشیں‘ نکاس آب کا مسئلہ اور سمارٹ سٹی پروجیکٹ

2025-07-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

2025-07-08
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

2025-07-06
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

جھلستی دھوپ اوربارشوںمیں کمی کے منفی اثرات

2025-07-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

امر ناتھ یاترا :سرکاری انتظامات اور مقامی مسلمانوں کے تعاون کا امتزاج

2025-07-03
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

پی اے سی: کیا کشمیر میں اب بھی جذباتی نعروں کی گنجائش ہے ؟

2025-07-02
اداریہ

ٹریفک حادثات، قیمتی جانوں کا اتلاف…ذمہ دار کون؟

2025-07-02
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

ٹریفک حادثات، قیمتی جانوں کا اتلاف…ذمہ دار کون؟

2025-07-01
Next Post
کے ایل راہل انگلینڈ کے دورے سے باہر، علاج کے لیے بیرون ملک جائیں گے

راہل دوسرے ٹیسٹ میچ سے باہر ہو سکتے ہیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.