تحریر:ہارون رشید
ہاں مانتے ہیں کہ بخاری صاحب… اپنے الطاف بخاری صاحب کبھی کبھی … جی ہاں صرف کبھی کبھی ‘ روز ،روز نہیں‘ صحیح بات کرتے ہیں … پتے کی بات کرتے ہیں …تو صاحب اب کی بار بخاری صاحب نے ایسا کیا کہہ دیا ؟ان جناب کاکہنا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات دفعہ ۳۷۰ کی بحالی کے پر فریب نعرے پر لڑا نہیں جا سکتا ہے اور… اور بالکل بھی نہیں لڑا جا سکتا ہے ۔ لگتا ہے کہ ان جناب کو کہیں سے بُو آنے لگی ہے کہ اپنی نیشنل کانفرنس اور میڈم جی کی پی ڈی پی اسی ایک اشو پر انتخابی میدان میں اترنے کی تیاریاں کررہی ہیں… اس سے پہلے کہ وہ ایسا ہی کریں … اپنے بخاری صاحب نے کہہ ڈالا کہ نہیں جناب ۳۷۰ کی بحالی پر الیکشن نہیں لڑا جا سکتا ہے اور … اور اللہ میاں کی قسم ہم ان کی حرف بہ حرف‘ لفظ بہ لفظ تائید کرتے ہیں ‘ اس کی توثیق کرتے اور … اور سو فیصد کرتے ہیں … اس لئے کرتے ہیں کہ واقعی میں اس اشو پر الیکشن لڑا نہیں جا سکتا ہے اور… اور اس لئے لڑا نہیں جا سکتا ہے کہ کل کو اگر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی الیکشن جیت بھی جاتی ہیں… گرچہ ایسا ہونے والا نہیں ہے‘ لیکن اتمام حجت کیلئے ہی سہی …اگر یہ الیکشن جیت بھی جاتی ہیں تو … تو کیا یہ ۳۷۰ بحال کر سکتی ہیں… کیااسمبلی کو ۳۷۰ بحال کرنے کا اختیار ہو گا… نہیں صاحب بالکل بھی نہیں ہو گا … پھر الیکشن میں دفعہ ۳۷۰ کی بحالی کا اشواٹھا نا… اس کی بحالی کے نام پر الیکشن لڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے ۔ الیکشن لڑئیے نا … شوق سے لڑ ئیے ‘ ملک کشمیر میں تو اتنے سارے اشوز ہیں ‘ جن پر الیکشن لڑا جا سکتا ہے …اور ان پر ہی الیکشن لڑا بھی جانا چاہئے کہ وہ کیا ہے کہ الیکشن کے نام پر بھی سیاسی جماعتوں نے ملک کشمیر کے لوگوں کے جذبات … معصوم جذبات سے کھیلا ہے …لیکن صاحب اب یہ کھیل بند ہو نا چاہئے ‘ اب لوگوں کو پر فریب نعروں سے دھوکہ دینے کا گناہ دو بار سرزد نہیں ہو نا چاہئے… اب ابہامات ختم کئے جانے چاہئیں‘ جتنے بھی کنفیوژن ہیں‘ ان سب کنفیوژنوں کو دور کیاجانا چاہئے اور… اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کیا جانا چاہئے اور… اور آنے والا الیکشن سیاسی جماعتوں کو اس کا موقع فراہم کررہاہے …پرفریب نعروں کے بغیر الیکشن لڑئیے تاکہ یہ پتہ چلے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ہے نا؟