جموں/۵دسمبر
ایک دہشت گرد گروپ کی جانب سے کمیونٹی کے 56 ملازمین کی ہٹ لسٹ جاری کرنے کے بعد وادی میں کام کرنے والے کشمیری پنڈت خوف و ہراس کی حالت میں ہیں۔
دہشت گردوں کے ذریعہ ٹارگٹ کلنگ کے بعد، وادی میں وزیر اعظم کے بحالی پیکیج (پی ایم آر پی) کے تحت کام کرنے والے متعدد کشمیری پنڈت جموں منتقل ہو گئے ہیں اور نقل مکانی کا مطالبہ کرتے ہوئے 200 سے زائد دنوں سے احتجاج پر ہیں۔
وہ یہاں بحالی کمشنر کے دفتر کے باہر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں، لشکر طیبہ کی شاخ، مزاحمتی محاذ (TRF) سے منسلک ایک بلاگ نے پی ایم آر پی کے تحت 56 کشمیری پنڈت ملازمین کی فہرست شائع کی، اور ان پر بڑھتے ہوئے حملوں کا انتباہ دیا۔
رنجن زوتشی، احتجاج کرنے والے ملازمین میں سے ایک، پیر کو پی ٹی آئی کو بتایا ”دہشت گرد گروپ پہلے بھی ہمیں دھمکی آمیز خطوط بھیج چکے ہیں، لیکن اس بار انتباہ ملازمین کی فہرست کے ساتھ ہے۔ اس سے نہ صرف احتجاج کرنے والے ملازمین میں بلکہ پوری کمیونٹی میں خوف پیدا ہوا ہے“۔
زوتشی نے کہا کہ تازہ ترین وارننگ کو پروپیگنڈا کے طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ’ان (دہشت گردوں) کے پاس ملازمین کے بارے میں تمام متعلقہ معلومات ہیں‘۔
ناموں کے افشاءکی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے، زوتشی نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا ماحولیاتی نظام بہت گہرا ہے اور اسے زیر زمین حامیوں کے خلاف سخت کارروائی کرکے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
زوتشی نے کہا، "حکومت کو یہ معلوم کرنا چاہیے کہ دہشت گردوں کو ایسی اہم معلومات کس نے لیک کیں۔ پولیس کو ایسی چیزوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ان ملازمین کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے جو اب بھی وادی میں تعینات ہیں“۔
ایک اور ملازم راکیش کمار نے کہا کہ پچھلے 208 دنوں سے ان کے مطالبات لا جواب ہیں۔ان کاکہنا تھا”حکومت ہماری تنخواہیں روک رہی ہے اور دباو¿ کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ہمیں وادی میں اپنی تعیناتی کی جگہ پر واپس جانے پر مجبور کر رہی ہے۔ ایسی حالت میں ہم واپس جانے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟“
کمار نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں نے وادی میں اپنی ڈیوٹی پر دوبارہ شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق ان کی ’زندگی اور موت‘ سے ہے۔
کمار نے کہا ”ہم صرف اسی صورت میں کام کر سکتے ہیں جب ہم زندہ ہوں…. حکومت کو ہمارے خاندانوں کو بچانے کےلئے ہمیں فوری طور پر دوسری جگہ منتقل کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے خاندان ذہنی اور مالی طور پر بہت زیادہ تکلیف میں ہیں۔“