نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک عرضی پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا جس میں جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی اور لوک سبھا حلقوں کی دوبارہ ترتیب دینے کیلئے حد بندی کمیشن کی تشکیل کے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا کہ اس نے آئینی دفعات کی خلاف ورزی کی ہے۔
دوسری جانب مرکز نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی اور لوک سبھا کے حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے کیلئے بنائے گئے حد بندی کمیشن کو ایسا کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
جسٹس ایس کے کول اور ابھے ایس اوکا کی بنچ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا، الیکشن کمیشن کے وکیل اور درخواست گزاروں کے وکیل کی عرضیوں پر سماعت کی۔
’’دلائل سنے گئے۔ فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔‘‘ بنچ نے کہا۔
حد بندی کمیشن کی تشکیل کے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضی کو خارج کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے‘ سالیسٹر جنرل تشار مہتا‘جو مرکز کی طرف سے پیش ہوئے، نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ جموں و کشمیر تنظیم نو قانون،۲۰۱۹ مرکزی حکومت کے ذریعے حد بندی کمیشن کے قیام کو نہیں روکتا۔
’’یہ عرض کیا جاتا ہے کہ ۲۰۱۹ کے ایکٹ کی دفعہ ۶۱؍ اور۶۲ اس کو نہیں روکتی ہیں۔
۲۰۱۹؍ایکٹ کے سیکشن ۶۲ کے تحت مرکزی حکومت کی طرف سے حد بندی کمیشن کا قیام‘ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ۲۰۱۹ کا ایکٹ جموں اور کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے کیلئے حد بندی کرنے کے لیے دو متبادل طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔
مہتا نے عدالت کو بتایا’’سیکشن ۶۰/۶۱ کی بنیاد پر، جب کہ حد بندی کا تعین کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے، سیکشن ۶۲(۲) اور۶۲(۳) حد بندی ایکٹ کے سیکشن ۳ کے تحت تشکیل کردہ حد بندی کمیشن کو حد بندی کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
۶ مارچ۲۰۲۰ کو، مرکزی وزارت قانون و انصاف (محکمہ قانون ساز) نے حد بندی ایکٹ ۲۰۰۲ کی دفعہ۳ کے تحت اختیارات کے استعمال میں ایک نوٹیفکیشن جاری کی تھی، جس میں سپریم کورٹ کے سابق جج (ریٹائرڈ) رنجنا پرکاش دیسائی کی سربراہی میں ایک حد بندی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔
سالیسٹر جنرل نے درخواست گزاروں کے اس عرضی کی بھی مخالفت کی کہ آئین کے آرٹیکل ۱۷۰ نے ۲۰۱۱ کی مردم شماری کی بنیاد پر حد بندی کی مشق کو روک دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ درخواست دہندگان اپنی اس عرضی میں غلط ہیں کہ حد بندی کی مشق یا تو ۲۰۰۱ کی مردم شماری کی بنیاد پر ہونی تھی یا ’سال ۲۰۲۶ کے بعد پہلی مردم شماری‘ کا انتظار کرنا تھا۔
مہتا نے سپریم کورٹ کو بتایا’’خیال یہ تھا کہ پرانی حکومت کے تحت آخری حد بندی ۱۹۹۵ میں ہوئی تھی۔ یہ بھی حکومت کا خیال تھا کہ نو تشکیل شدہ مرکز کے زیر انتظام علاقے کو فوری طور پر جمہوریت دی جائے۔ اس کے لیے۲۰۲۶ تک انتظار کیا جائے یا۲۰۰۲ کے مطابق ایسا کیا جائے۔ قانونی طور پر غیر دانشمندانہ تھا‘‘۔
دو درخواست گزاروں حاجی عبدالغنی خان اور محمد ایوب مٹو کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حد بندی کی مشق آئین کی اسکیم کے خلاف کی گئی اور حدود میں ردوبدل اور توسیعی علاقوں کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔
عرضی میں یہ اعلان طلب کیا گیا تھا کہ جموں و کشمیر میں نشستوں کی تعداد ۱۰۷ سے بڑھا کر ۱۱۴ (پاکستان کے مقبوضہ کشمیر کی۲۴ نشستوں سمیت) کرنا آئینی دفعات اور قانونی دفعات کے خلاف ہے، خاص طور پر جموں و کشمیر تنظیم نو قانون۲۰۱۹ کی دفعہ ۶۳ کے تحت۔
اس نے کہا تھا کہ آخری حد بندی کمیشن۱۲جولائی ۲۰۰۲ کو ملک بھر میں اس مشق کو انجام دینے کیلئے۲۰۰۱ کی مردم شماری کے بعد حد بندی ایکٹ ۲۰۰۲ کے سیکشن۳ کے ذریعے حاصل اختیارات کے استعمال میں قائم کیا گیا تھا۔